بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو مذاق میں دوسرے مرد کے پاس جانے کا کہنا شوہر کی بے غیرتی ہے


سوال

شوہر کا مذاق میں بیوی کو دوسرے مرد کے پاس جانے کو کہنا، اس کا شریعت میں کیا حکم ہے؟

جواب

کسی شوہر کا اپنی بیوی سے مذاق میں  دوسرے نامحرم مرد کے پاس جانے کو کہنا بڑی بے شرمی اور بہت بے غیرتی کی  بات ہے،  اور گناہ ہے؛ کیوں کہ یہ مزاح کے بارے میں شریعت کی طے کردہ حدود کی خلاف ورزی اور بے حیائی کی طرف ایک طرح کا میلان ہے، جس پر سخت سزا کی وعید ہے؛ چناں چہ  مذاق میں بھی ایسی بات کرنے کی گنجائش نہیں، اور بیوی کو اس طرح کے کلمات کہنے سے بہرحال اجتناب کرنا لازم ہے۔  تاہم جب یہ  الفاظ صرف مذاق کے طور پر کہے گئے ہوں  اور شوہر  کی نیت  طلاق دینے کی نہ ہو، تو اس طرح کہنے سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔

مسند ابی یعلٰی میں ہے:

"عن عبد الله قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ليس المؤمن باللعان، ولا بالطعان، ‌ولا ‌الفاحش، ولا البذيء.»[حكم حسين سليم أسد] : إسناده صحيح. "

ترجمہ: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"مومن بہت طعنے دینے والا، لعنت کرنے والا، بےحیا اور فحش گو نہیں ہوتا ہے۔"

(مسند عبد الله بن مسعود رضي الله عنه، ج:9، ص:250، ت حسين سليم أسد الداراني، ط: دار المأمون للتراث - دمشق)

 التوحید لابن مندہ میں ہے:

"أخبرنا محمد بن يعقوب، ثنا محمد بن إسحاق الصنعانى، ثنا معيس بن منصور، ثنا ابن أبى زائدة، عن عثمان بن حكيم، عن محمد بن أفلح، عن أسامة بن زيد، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: «إن الله لا يحب الفاحش المتفحش»، رواه أبو موسى الهروى، عن أبى زائدة، فقال عن أفلح."

(‌‌بيان آخر يدل على أن الله لا يحب الفحش والتفحش، ص: 700، ط: دار الهدي النبوي۔مصر)

مرقاۃ المفاتیح  میں ہے :

"قال النووي: إعلم أن ‌المزاح ‌المنهي عنه هو الذي فيه إفراط ويداوم عليه، فإنه يورث الضحك وقسوة القلب، ويشغل عن ذكر الله والفكر في مهمات الدين، ويؤول في كثير من الأوقات إلى الإيذاء، ويورث الأحقاد، ويسقط المهابة والوقار، فأما ما سلم من هذه الأمور، فهو المباح الذي كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يفعله على الندرة لمصلحة تطييب نفس المخاطب ومؤانسته، وهو سنة مستحبة، فاعلم هذا، فإنه مما يعظم الاحتياج إليه. اهـ.

(کتاب الآداب ،باب المزاح، ج: 7،ص: 3041، ط: دارالفکر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(وأما) الكناية فنوعان: نوع هو كناية بنفسه وضعا، ونوع هو ملحق بها شرعا في حق النية، أما النوع الأول فهو كل لفظ يستعمل في الطلاق ويستعمل في غيره نحو قوله: أنت بائن۔۔۔تزوجي ‌ابتغي الأزواج الحقي بأهلك ونحو ذلك۔۔۔۔وقوله: تزوجي يحتمل الطلاق إذ لا يحل لها التزوج بزوج آخر إلا بعد الطلاق ويحتمل تزوجي إن طلقتك، وكذا قوله: ‌ابتغي الأزواج"

‌‌(فصل في الكناية في الطلاق، ج: 3، ص: 105، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144502101238

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں