بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مضافات شہر سے متصل و منفصل مکانات کیا شہر کے تابع ہیں؟


سوال

بعض فتاوی و كتب مثلاً مراقی الفلاح ص: ١٨٧ باب صلاة المسافر، فتاوی ماضی خان  ١ / ٨٥ باب صلاة المسافر وغیرہ میں ہے کہ اگر گھر مصرسے کچھ فاصلہ پر ہو، اور درمیان میں قدر غلوہ یا مزرعہ فاصلہ تو وہ گھر اس مصر کے مضافات میں شمار نہیں ہوں گے، اور سفر، نماز جمعہ وغیرہ کے بارے میں ان کا حکم مصر والا نہیں ہوگا۔

 اب پوچھنا یہ ہے کہ اگر درمیان میں دو تین سو فٹ مزرعہ ہو تو اس صورت میں مضافات میں شمار ہوں گے یا نہیں ؟ کیوں کہ اگر قدر غلوہ لیا جائے تو مضافات میں شمار ہوں گے اور اگر مزرعہ کا اعتبار کیا جائے، تو مصر شمار نہیں ہوں گے۔ 

نیز اگر مزرعہ میں عرف کا اعتبار ہو،  تو کیا غلوہ  کی مقدار میں بھی عرف کا اعتبار ہوگا؟ بصورت دیگر عرف اشخاص / افراد اور علاقوں کی وجہ سے مختلف ہو سکتا ہے ، لہذا اختلاف کی صورت میں کس چیز کا اعتبار ہوگا؟

جواب

موجودہ زمانے میں مضافات شہر سے متصل یا کچھ فاصلہ پر واقع مکانات کا شہر کے تابع   ہونے یا نہ ہونے کا مدار عرف پر ہے، مزرعہ یا غلوہ کا اعتبار نہیں،ایسے مکانات اگر متعین شہر کے عرف میں مضافات میں شمار کیے جاتے ہوں، تو وہ مضافات شہر کے تابع ہوں گے، البتہ وہ مکانات جو عرفا مضافات میں شمار نہ کیے جاتے ہوں، اور جداگانہ حیثیت کے حامل ہوں گے،  وہ مضافات  شہر میں شمار نہ ہوں ، اور وہاں جمعہ و عیدین  قائم کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔

نیز مسئولہ صورت میں ہر شہر کے عرف کا اعتبار ہوگا، ایک شہر کا عرف دوسرے شہر کے لیے حجت نہ ہوگا۔

الوجيز في أصول الفقه الإسلاميمیں ہے:

[تعريف العرف]

"العرف لغة: المعرفة والمعروف، وهو الخير والرفق والإحسان، والمعروف ضد المنكر أيضا.

وفي الاصطلاح: العرف: مرادف للعادة، وعرفه الشيخ أبو سنة نقلا عن "مستصفى النسفي" بقوله: العادة والعرف ما استقر في النفوس من جهة العقول وتلقته الطباع السليمة بالقبول.

والعادة مأخوذة من المعاودة، فهي بتكرارها ومعاودتها مرة بعد أخرى صارت معروفة مستقرة في النفوس والعقول، متلقاة بالقبول من غير علاقة ولا قرينة حتى صارت حقيقة عرفية."

(الفصل الثاني في المصادر المختلف فيها، المبحث الرابع في العرف، ١ / ٢٦٥، ط: دار الخير للطباعة والنشر والتوزيع، دمشق - سوريا)

رد المحتار علي الدر المختارمیں ہے:

"(وما لم ينص عليه حمل على العرف)"

(باب الربا، ٦ / ١٧٦، ط: دار الفكر)

حاشية ابن العابدينمیں ہے:

"لأن المفتى به اعتبار العرف فحيث تغير العرف فالفتوى على العرف الحادث فافهم."

(كتاب الأيمان، ٣ / ٧٤٨، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144506102261

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں