بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کی وصیت کا حکم


سوال

میت  کی  وصیت  کے بارے میں راہ نمائی فرمائیں  اور  ایسا جواب اور  حوالہ دیں کہ  ہم کو  اطمینان ہوجائے!

جواب

سوال سے  مقصد اگر میت کی اپنی زندگی میں کسی کے لیے وصیت سے متعلق معلوم کرنا ہے تو واضح رہے کہ میت نے اگر اپنی زندگی میں کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو اس میت کے ترکہ (میں سے تجہیز و تکفین کے اخراجات اور قرض ہونے کی صورت میں قرض کی ادائیگی کے بعد، ترکے) کے ایک تہائی حصے میں اس وصیت کو نافذ کردیا جائے گا۔ اور اگر وصیت ایک تہائی حصے سے زائد ہو تو ورثاء کی اجازت کے بغیر اسے نافذ نہیں کیا جائے گا۔ اگر ایک تہائی حصے سے زائد حصے کی وصیت میں بالغ ورثاء نے اجازت دی تو بالغ ورثاء کے حق کے بقدر اسے نافذ کیا جائے گا، ورنہ ایک تہائی حصے سے زائد حصے کی وصیت پر عمل نہیں کیا جائے گا۔

اور اگر میت نے اپنی زندگی میں کسی وارث کے لیے وصیت کی ہو تو ایسی وصیت دیگر ورثاء کی اجازت پر موقوف ہوگی، اگر دیگر ورثاء سب بالغ ہوں اور انہوں نے اجازت دے دی تو اسے نافذ کیا جائے گا، یا بعض بالغ ہوں، بعض نابالغ اور بالغ اجازت دے دیں تو ان کے حصے کے بقدر نافذ ہوگی، ورنہ اس وصیت پر عمل نہیں کیا جائے گا۔

اگر میت نے کسی ناجائز کام کی وصیت کی ہو تو اس پر عمل کرنا جائز نہیں ہوگا۔

اور اگر سوال سے مقصد کسی اور چیز سے متعلق پوچھنا ہے تو اس کی وضاحت کرکے دوبارہ ارسال کرے تو اس کے مطابق جواب دیا جائےگا۔

فتاویٰ شامی (الدر المختار ورد المحتار)میں ہے:

"(وتجوز بالثلث للأجنبي) عند عدم المانع (وإن لم يجز الوارث ذلك لا الزيادة عليه  إلا أن تجيز ورثته بعد موته) ولا تعتبر إجازتهم حال حياته أصلا بل بعد وفاته (وهم كبار) يعني يعتبر كونه وارثه أو غير وارث وقت الموت.

(قوله: لا الزيادة عليه إلخ) فإذا أوصى بما زاد على الثلث ولم يكن إلا وارث يرد عليه وأجازها، فالبقية له وإن أجاز من لا يرد عليه ففرضه في البقية، وباقيها لبيت المال فلو أوصى بثلثي ماله وأجازت الزوجة فلها ربع الثلث واحد من اثني عشر مخرج الثلثين وربع الباقي، ولبيت المال ثلاثة ولزيد ثمانية وتمامه في شرح السائحاني على منظومة ابن الشحنة في الفرائض، وإن لم تجز وأوصى لها أيضا أولا فقد أوضحه في الجوهرة فراجعها (قوله إلا أن تجيز ورثته إلخ) أي بعد العلم بما أوصى به أما إذا علموا أنه أوصى بوصايا ولا يعلمون ما أوصى به، فقالوا أجزنا ذلك لا تصح إجازتهم خانية عن المنتقى: ونقل السائحاني عن المقدسي إذا أجاز بعض الورثة جاز عليه بقدر حصته لو أجازت كل الورثة، حتى لو أوصى لرجل بالنصف، وأجاز أحد وارثين مستويين كان للمجيز الربع ولرفيقه الثلث وللوصي له الثلث الأصلي ونصف السدس من قبل المجيز اهـ في غاية البيان.

[تنبيه] إذا صحت الإجازة بعد الموت يتملكه المجاز له من قبل الموصي عندنا وعند الشافعي من قبل المجيز كما في الزيلعي وسيجيء بيان ذلك آخر الباب الآتي (قوله ولا يتغير إلخ) أي لأنها قبل ثبوت الحق لهم لأن ثبوته عند الموت، فكان لهم أن يردوه بعد وفاته بخلاف الإجازة بعد الموت، لأنه بعد ثبوت الحق وتمامه في المنح وفي البزازية تعتبر الإجازة بعد الموت لا قبله هذا في الوصية، أما في التصرفات المفيدة لأحكامها كالإعتاق وغيره إذا صدر في مرض الموت، وأجازه الوارث قبل الموت لا رواية فيه عن أصحابنا قال الإمام علاء الدين السمرقندي: أعتق المريض عبده ورضي به الورثة قبل الموت لا يسعى العبد في شيء وقد نصوا على أن وارث المجروح إذا عفا عن الجارح يصح ولا يملك المطالبة بعد الموت المجروح اهـ (قوله وهم كبار) المراد أن يكونوا من أهل التصرف ويأتي تمامه (قوله يعني يعتبر إلخ) الأنسب جعل هذه مسألة مستقلة فيعبر بالواو ط".

(کتاب الوصایا، ج:6، ص:650، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100282

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں