بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کے لیے عام تعزیت کرنا/ کلمے پڑھوانا/ تعزیتی جلسہ کروانے کا حکم


سوال

میت کو دفن کر نے کے بعد میت کے گھر پر اجتماعی دُعا کا اہتمام کرنا اور چنے پر کلمے پڑھنا، اور نا کرنے والوں کو طعن و تشنیع کرناکیسا ہے؟  اور تین دن کے بعد عمومی دعوت کا اہتمام کرنا اور بیان کروانا اور اجتماعی دُعا کرنا کیسا ہے؟

جواب

1: واضح رہے کہ تعزیت کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ میت کی تدفین سے پہلے یا اگر موقع نہ ملے تو تدفین کے بعد   میت کے گھر والوں کے یہاں جا کر ان کو تسلی دے، ان کی دل جوئی کرے، صبر کی تلقین کرے،  ان کے  اور  میت کے  حق  میں  دعائیہ جملے کہے،   تعزیت کے  الفاظ اور  مضمون متعین نہیں ہے، صبر  اور  تسلی کے لیے جو  الفاظ زیادہ موزوں ہوں  وہ جملے کہے، تعزیت کی بہترین دعا یہ ہے:

"إِنَّ لِلّٰهِ مَا أَخَذَ وَلَهٗ مَا أَعْطٰى، وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهٗ بِأَجَلٍ مُّسَمًّى" یا "أَعْظَمَ اللّٰهُ أَجْرَكَ وَ أَحْسَنَ عَزَائَكَ وَ غَفَرَ لِمَیِّتِكَ."

اس سے  زائد بھی ایسا مضمون بیان کیا جاسکتا ہے جس سے غم ہلکا ہوسکے اور آخرت کی فکر پیدا ہو۔

نیز تعزیت کے دوران ہر آنے والے کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا اور چنے پر کلمات پڑھنا سنت سے ثابت نہیں ہے، اور نہ ہی اس کے لیے کوئی دعا مخصوص ہے، اس لیے اس کو لازم سمجھ کر کرنا درست نہیں ہے، البتہ لازم سمجھے بغیر مغفرت کی کوئی بھی دعا کی جائے یا کبھی ہاتھ اٹھا کر دعا کرلی، یا مخصوص کیفت کو لازم سمجھے بغیر کلمات پڑھ کر میت کے لئے ایصالِ ثواب کی جائے  تو کوئی حرج نہیں ہے۔

واضح رہے کہ وفات سے تین دن کے اندر اندر تعزیت کرلینی چاہیے، اس کے بعد تعزیت پسندیدہ نہیں ہے، الا یہ کہ کسی عذر کی وجہ سے تین دن کے اندر نہ کرسکے تو اس کے بعد بھی تعزیت کی جاسکتی ہے۔

2:تعزیت میں اصل یہی ہے کہ تین دن تک ہو،  تاہم اگر کوئی شخص صاحبِ  اَثر و رسوخ ہو،  جس کے متعلقین زیادہ ہو اور تعزیت کے لیےتین دن کے اندر آنے میں دشواری ہوتو ایسی صورت میں دفع حرج کے لیے تعزیتی جلسہ کروانااور اس میں دعا کرانے کی گنجائش ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويستحب أن يقال لصاحب التعزية: غفر الله تعالى لميتك و تجاوز عنه وتغمده برحمته ورزقك الصبر على مصيبته وآجرك على موته، كذا في المضمرات ناقلا عن الحجة.

وأحسن ذلك تعزية رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إنّ لله ما أخذ وله ما أعطى وكل شيء عنده بأجل مسمى»، ويقال في تعزية المسلم بالكافر: "أعظم الله أجرك وأحسن عزاءك" وفي تعزية الكافر بالمسلم: "أحسن الله عزاءك وغفر لميتك" ولا يقال: "أعظم الله أجرك"، وفي تعزية الكافر بالكافر: "أخلف الله عليك ولا نقص عددك"، كذا في السراج الوهاج."

(الباب الحادى والعشرون فى الجنائز، مسائل التعزية، ج:1، ص:167، ط:مكتبه رشيديه)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"والأصل فيه أن الإنسان له أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة أو صوما أو صدقة أو قراءة قرآن أو ذكرا أو طوافا أو حجا أو عمرة أو غير ذلك عند أصحابنا للكتاب والسنة أما الكتاب فلقوله تعالى {وقل ربي ارحمهما كما ربياني صغيرا} [الإسراء: 24] ، وإخباره تعالى عن ملائكته بقوله {ويستغفرون للذين آمنوا} [غافر: 7] وساق عبارتهم بقوله تعالى {ربنا وسعت كل شيء رحمة وعلما فاغفر للذين تابوا واتبعوا سبيلك} [غافر: 7] إلى قوله {وقهم السيئات} [غافر: 9] ، وأما السنة فأحاديث كثيرة منها ما في الصحيحين «حين ضحى بالكبشين فجعل أحدهما عن أمته» ، وهو مشهور تجوز الزيادة به على الكتاب، ومنها ما رواه أبو داود «اقرءوا على موتاكم سورة يس» وحينئذ فتعين أن لا يكون قوله تعالى: {وأن ليس للإنسان إلا ما سعى} [النجم: 39] على ظاهره، وفيه تأويلات أقربها ما اختاره المحقق ابن الهمام أنها مقيدة بما يهبه العامل يعني ليس للإنسان من سعي غيره نصيب إلا إذا وهبه له فحينئذ يكون له، وأما قوله - عليه السلام -: «لا يصوم أحد عن أحد، ولا يصلي أحد عن أحد» فهو في حق الخروج عن العهدة لا في حق الثواب فإن من صام أو صلى أو تصدق وجعل ثوابه لغيره من الأموات والأحياء جاز ويصل ثوابها إليهم عند أهل السنة والجماعة كذا في البدائع".

(کتاب الحج، باب الحج عن الغیر، ج:3، ص:63، ط:دارالکتاب الاسلامی)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"ولأن ذكر الله تعالى إذا قصد به التخصيص بوقت دون وقت أو بشيء دون شيء لم يكن مشروعا حيث لم يرد الشرع به؛ لأنه خلاف المشروع".

(کتاب الصلوۃ، باب العیدین، ج:2، ص:172، ط:دارالکتاب الاسلامی)

صحيح البخاري  میں ہے:

"حدثنا أبو النعمان، قال: حدثنا أبو عوانة، عن زياد بن علاقة، قال: سمعت جرير بن عبد الله، يقول يوم مات المغيرة بن شعبة، قام فحمد الله وأثنى عليه، وقال: عليكم باتقاء الله وحده لا شريك له، والوقار، والسكينة، حتى يأتيكم أمير، فإنما يأتيكم الآن. ثم قال: استعفوا لأميركم، فإنه كان يحب العفو، ثم قال: أما بعد، فإني أتيت النبي صلى الله عليه وسلم قلت: أبايعك على الإسلام فشرط علي: «والنصح لكل مسلم» فبايعته على هذا، ورب هذا المسجد إني لناصح لكم، ثم استغفر ونزل".

(کتاب الایمان، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم: " الدين النصيحة، رقم الحدیث:58، ج:1، ص:21، ط:دارطوق النجاۃ)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144411101096

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں