بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کے کپڑوں کو استعمال کرنے کا حکم


سوال

کیا میت کے استعمال شدہ کپڑے ان کی اولاد پہن سکتی ہیں، یا خیرات کرنا ضروری ہے؟

جواب

واضح رہے کہ انتقال کے وقت میت کی ملکیت میں جو کچھ موجود ہوتاہے وہ سب اس کےترکہ میں شمار ہوتا ہے،جسے ورثاء کےدرمیان ان کے شرعی حصص کے بقدر تقسیم کیا جائے گا ،پھر جس کے حصے میں مذکورہ کپڑے آجائے تو وہ خود بھی استعمال کرسکتا ہے، اور کسی دوسرے کو ہدیہ  یا صدقہ بھی کرسکتا ہے۔

شرح المجلۃ لسلیم رستم باز میں ہے:

"كما ان اعيان المتوفي المتروكة عنه مشتركة بين الورثة علي حسب حصصهم."

(كتاب الشركة ،الفصل الثالث، ج:1، ص: 610، ط:دارالاشاعة العربية)

شرح المجلة لسليم رستم باز ميں هے:

"يجوز لأحد أصحاب الحصص التصرف مستقلا في الملك المشترك بإذن الآخر،لكن لايجوز له أن يتصرف تصرفا مضرا بالشريك ، والإذن نوعان: صريح و دلالة ، ففي الأول يتصرف الشريك بحصة شريكه كما أذنه سواء أضر أو لم يضر فله أن يرهن و يبيع أو يهب."

(الكتاب العاشر في أنواع الشركات ، الفصل الثاني،  الماده: 1071،  ص:600، ط:دارالاشاعت العربية)

موسوعة الفقه الإسلامي میں ہے:

"القاعدة التاسعة: الأصل في الأشياء الإباحة.فكل ما خلق الله الأصل فيه الحل والإباحة ما لم يرد دليل يحرمه.

وكل ما صنع الإنسان من الآلات والأجهزة فالأصل فيه الحل والإباحة ما لم يرد فيه دليل يحرمه.

فالأصل الإباحة في كل شيء، والتحريم مستثنى."

(القاعدة التاسعة، ج:2، ص:293، ط:بيت الافكار الدولية)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144408102452

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں