بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کو دو مرتبہ غسل دینے کاحکم


سوال

ہمارے علاقے میں میت کو دو مرتبہ غسل دینے کا رواج ہے ، ایک غسل تو انتقال کے کچھ ہی دیر بعد دیا جاتاہے، چاہے دن یا رات کے جس حصے میں بھی انتقال ہوا ہو، اور چاہے میت کو انتقال کے اگلے روز ہی کسی وقت تجہیز و تکفین کیوں نہ کرنی ہو، اس پہلے غسل کو "ناپاکی کا غسل" نام دے رکھا ہے ، عوام اس پہلے غسل کی علت یہ بیان کرتے ہیں کہ روح نکلنے کے دوران پیشاب پاخانہ خارج ہو سکتا ہے ، اور میت کو اتنی دیر (جنازہ کی تیاری) تک اسی ناپاکی کی حالت میں کیسے رکھا جائے ، کبھی پیشاب یا کوئی گندگی خارج ہو بھی جاتی ہے  اور کبھی نہیں ، لیکن دونوں صورتوں (ظن و یقین) میں پاکی کا غسل لازماً دیا جاتاہے، چاہے ناپاکی نظر آئے یا نہ آئے ، اس کے بعد پھر دوسرا غسل میت کی نمازِ جنازہ اور تدفین کی تیار کے وقت دیا جاتا ہے ، اس سلسلے میں دریافت طلب امر یہ ہے کہ

1۔ کیا میت کو دو مرتبہ غسل دینا شرعاً ضروری ہے ، اور شریعت میں اس کا کوئی ثبوت ہے کہ نہیں ؟

2۔ کیا محض اس گمان و شک کی بنیاد پر کہ ممکن ہے روح نکلتے وقت کوئی ناپاکی خارج ہوگئی ہوگی ، اس خیال سے میت کو ناپاکی کا غسل دینا درست ہے ؟

3۔ اگر یقینی طور پر علم ہوجائے کہ کوئی گندگی خارج ہوئی ہے، جیسا کہ روح نکلتے وقت کبھی پیشاب وغیرہ کپڑوں میں ہوتا ہے ، تو کیا ایسی صورت میں میت کو ناپاکی کا غسل دینا شرعاً ضروری ہے ، یا صرف ناپاکی دور کردینا اور کپڑے تبدیل کر دینا کافی ہے ؟

4۔ اگر روح نکلنے کے دوران پیشاب خارج ہو گیا تو اسی وقت فوری طور پر استنجا کرانا شرعاً ضروری ہے یا صرف کپڑے تبدیل کردینا کافی ہے ؟

5۔ اگر میت کو انتقال کے وقت ہی ناپاکی کا غسل دے دیا گیاتو کیا جنازے کی تیاری کے وقت دوبارہ غسل دینا ضروری ہے  یا وہی پہلا غسل کافی ہے ، جو کہ روح نکلنے کے بعد ہی دینے کا یہاں رواج ہے ؟

جواب

واضح رہےکہ میت کو ایک بار غسل دیناواجب ہے،اور یہی شرعی حکم ہے۔میت  کو ایک مرتبہ  غسل  دینے  سے حکمِ شرعی پورا ہو جاتا ہے، دوبارہ غسل دینے کی ضرورت نہیں ہوتی،  اس لیے ایک مرتبہ مسنون غسل دینے کے بعد میت کو دوبارہ غسل نہیں دینا چاہیے،چنانچہ ناپاکی خارج ہونےکےمحض شک یاگمان پر الگ سےناپاکی کاغسل دیناضروری نہیں ہے،اگر میت کو ایک مرتبہ غسل دیاگیا ہو تو چاہےکوئی ناپاکی خارج ہوئی ہویاخارج نہ ہوئی ہو دونوں صورتوں میں ایک ہی غسل کافی ہے،لہٰذاجنازےکی تیاری کےوقت دوسری مرتبہ غسل نہیں دیناچاہیے۔ یہ رسم قابل ترک ہے۔

"بدائع الصنائع" میں ہے:

"أما بيان كيفية وجوبه، فهو واجب على سبيل الكفاية ،إذا قام به البعض سقط عن الباقين ؛لحصول المقصود بالبعض ،كسائر الواجبات على سبيل الكفاية، وكذا الواجب هو الغسل مرة واحدة، والتكرار سنة، وليس بواجب حتى لو اكتفى بغسلة واحدة، أو غمسة واحدة في ماء جار جاز؛ لأن الغسل إنما وجب لإزالة الحدث ،فقد حصل بالمرة الواحدة ،كما في غسل الجنابة."

(فصل صلاة الجنازة، فصل الغسل، 300/1، ط: دارالكتب العلمية)

  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405101753

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں