بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کی وجہ سے نماز جنازہ پڑھنے والوں کی مغفرت کی تحقیق


سوال

عام طور پر جنازوں پر یہ حدیث مبارکہ بیان کی جاتی ہے  کہ بعض میتیں ایسی ہوتی ہیں کہ  میت کی وجہ سے جنازہ پڑھنے والوں کی  بخشش ہو جاتی ہے اور بعض میتیں ایسی ہوتی ہیں کہ  جنازہ پڑھنے والوں کی وجہ سے میت کی بخشش ہو جاتی ہے۔

کیا اس کے متعلق بخاری شریف میں حوالہ موجود ہے؟ 

جواب

جواب   سے قبل ایک  وضاحت  ضروری ہے کہ صحيح ا حادیث مبارکہ کی  صرف ایک کتاب نہیں اور ضروری نہیں کہ  دین کا ہر مسئلہ اسی ایک کتاب میں ہو ،اسی لیے کسی مسئلہ کے لیے صرف  صحیح بخاری کا حوالہ طلب نہیں کرنا چاہیے ،بلکہ  قابلِ عمل روایت طلب کرنی چاہیے، چاہے وہ کسی بھی حدیث کی کتاب میں ہو۔

احادیث مبارکہ میں نمازہ جنازہ پڑھنے والوں کی وجہ سے میت کی مغفرت، اور میت کی وجہ سےجنازہ پڑھنے والوں کی مغفرت کے متعلق الگ الگ روایات ہیں ،غالب گمان یہ ہے کہ سوال میں جس حدیث کا ذکر ہے،  وہ ان دونوں قسم کی روایات کا  مجموعہ ہے؛ کیوں کہ بعینہ ان الفاظ کے ساتھ  کوئی حدیث ،احادیثِ مبارکہ کی کتب میں نہیں مل سکی۔

۱- جنازہ پڑھنے والوں کی وجہ سےمیت کی مغفرت :

صحیح مسلم كی حدیث میں ہے کہ جس میت پر مسلمانوں کی سولوگوں کی جماعت نے نمازہ جنازہ پڑھی،اوروہ سب کے سب اس کے لیے  شفاعت کے طلب گار ہوں ،تو اس میت کے حق میں ان کی شفاعت ضرور قبول کی جاتی ہے۔

سنن ابوداؤدکی ایک حدیث مبارک میں ہے کہ جس میت کے جنازہ میں چالیس ايسےلوگ شریک ہو جائیں، جو الله كے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے،تو ان کی شفاعت ضرور قبول کی جاتی ہے ۔

ابو داؤد کی دوسری روایت میں ہےکہ جس میت کے جنازہ میں تین صفیں ہو جائیں ،تو اس میت کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔

۲- میت کی وجہ سے جنازہ میں شریک لوگوں کی مغفرت :

ایک روایت میں ہےکہ مؤمن کا سب سے پہلا تحفہ یہ ہے کہ اس کے جنازہ کے لیے نکلنے والوں كی مغفرت کر دی جائے۔ 

ایک روایت میں ہے کہ مؤمن بندے کو قیامت کے دن سب سے پہلے جو بدلہ  دیاجائے گا، وہ  یہ ہے کہ جب اس کی وفات ہوتو اس کے جنازہ کے پیچھے چلنے والے تمام لوگوں کی مغفرت کر دی جائے ۔

یہ روایات مرفوعا ً (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول) موقوفاً (کسی صحابی کا قول)، اور مقطوعًا(کسی تابعی کا قول)   تینوں طریقوں سے مروی ہیں۔

​پہلے قسم والی روایات صحیح اسناد سے مروی ہیں ،جب کہ دوسری قسم والی روایات کی سندیں کمزور ہیں ،تاہم چونکہ ان کا تعلق فضائل سے ہے،اس لیے اس مقام پر وہ روایات قابلِ بیان ہو سکتی ہیں ۔

پہلی قسم والی روایات :

١- عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ما من ميت تصلي عليه أمة من المسلمين يبلغون مائة، كلهم يشفعون له، إلا شفعوا فيه.

(صحيح مسلم، باب من صلى عليه مائة شفعوا فيه،الرقم :947، 2/ 654، دار إحياء التراث العربي، بيروت)

٢- عن ابن عباس، سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: ما من مسلم يموت فيقوم على جنازته أربعون رجلا لا يشركون بالله شيئا إلا شفعوا فيه.

(سنن أبي داود، بَابُ فَضْلِ الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَائِزِ وَتَشْيِيعِهَا، الرقم:3170، 3/ 203، المكتبة العصرية، صيدا،بيروت)

٣- عن مالك بن هبيرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ما من مسلم يموت فيصلي عليه ثلاثة صفوف من المسلمين إلا أوجب".

(سنن أبي داؤد، بَابٌ فِي الصُّفُوفِ عَلَى الْجَنَازَةِ، الرقم:3166، 3/ 202)

دوسری قسم والی روایات:

١- عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن أول كرامة المؤمن على الله - عز وجل - أن يغفر لمشيعيه".

٢- عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن أول ما يجازى به العبد المؤمن يوم القيامة إذا مات أن يغفر لجميع من يتبع جنازته "وقال : في هذه الأسانيد ضعف. والله أعلم

(شعب الإيمان للبيهقي، باب الصلاة على من مات من أهل القبلة، رقم الحديث : 8818 ۔ ، 8819، مكتبة الرشد، الرياض، الأولى، 1423 هـ۔ تاريخ بغداد للخطيب، الرقم :789، 3/ 185، دار الغرب الإسلامي –بيروت، الأولى، 1422هـ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100717

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں