بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کی طرف سے کون سا صدقہ کرنا افضل ہے؟


سوال

مرحوم شخص کے لیے کون سا صدقہ سب سے افضل ہے؟

جواب

میت کو مالی صدقات، حج، عمرہ، نفل نماز، قرآنِ مجید  کی تلاوت ، درود شریف، استغفار اور ذکرو اذکار کا ثواب پہنچتا ہے، لہٰذا مرحوم کی طرف سے  یہ تمام نفلی صدقات  کرنا جائز ہے،جیسا کہ  احادیث سے ثابت ہے۔ البتہ ان میں سے افضل کون سا ہے؟  یہ افراد اور اعمال کی کیفیت کے اعتبار سے مختلف ہوسکتاہے، البتہ بعض روایات میں صدقہ مالیہ کا ذکر ہے، اس لیے بعض اکابر نے دیگر نفلی عبادات و اعمال میں سے صدقہ مالیہ یا صدقہ جاریہ کو افضل قرار دیا ہے، لیکن پھر علماء فرماتے ہیں کہ  صدقہ افضل ہونا کسی ا یک چیز میں منحصر نہیں، بلکہ علاقے ، زمانے اور لوگوں کے اعتبار سے یہ مختلف ہوتا رہتا ہے،جیسا کہ     ایک حدیثِ مبارک  معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺ نے  میت  کے لیے بہترین صدقہ (مخلوق کو )  پانی فراہم  کرنا قرار دیا۔ اور یہ اس  لیے فرمایا کہ  وہاں پانی کی قلت    اور گرمی کی شدت کی وجہ سے اس وقت زیادہ ضرورت پانی کی تھی، لہٰذا اس موقع پر پانی کا صدقہ کرنا زیادہ افضل قرار دیا۔ جب کہ دیگر روایات سے دیگر چیزوں کا صدقہ افضل معلوم ہوتا ہے، علامہ مناویؒ نے ایسی کئی روایات کو جمع کیا ہے۔

(کما فی  "التيسير بشرح الجامع الصغير "(1 / 183)، حرف الهمزة، المؤلف: زين الدين محمد المدعو بعبد الرؤوف بن تاج العارفين بن علي بن زين العابدين الحدادي ثم المناوي القاهري (المتوفى: 1031هـ)، الناشر: مكتبة الإمام الشافعي - الرياض)

لہٰذا جس چیز کی جس زمانے میں یا جس علاقے میں زیادہ ضرورت ہو اس کا صدقہ زیادہ افضل ہوگا، اسی طرح جس چیز کا خرچ کرنا نفس پر بھاری ہو ، اس کے صدقہ  کرنے میں ثواب بھی زیادہ ملتا ہے۔ ہر آدمی اس میں اپنے حالات کے اعتبار سے فیصلہ کر سکتا ہے۔

مشکات میں ہے:

"وعن سعد بن عبادة قال: يا رسول الله إن أم سعد ماتت، فأي الصدقة أفضل؟ قال: «الماء». فحفر بئراً وقال: هذه لأم سعد. رواه أبو داود والنسائي".

(مشكاة المصابيح (1/ 597)،باب فضل الصدقة), كتاب الزكاة, الناشر: المكتب الإسلامي - بيروت)

ترجمہ: حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ  سعد  کی (یعنی میری) والدہ کا انتقال ہوگیا ہے، ان کی طرف سے بہترین صدقہ کون سا ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: پانی۔ چناں چہ سعد رضی اللہ عنہ نے ایک کنواں کھدوادیا، اور یوں کہا: یہ سعد کی والدہ کے (ایصالِ ثواب کے) لیے ہے۔

مرقات میں ہے:

"(وعن سعد بن عبادة قال: يا رسول الله إن أم سعد) أراد به نفسه ( «ماتت، فأي الصدقة أفضل» ؟) أي لروحها (قال: الماء) إنما كان الماء أفضل لأنه أعم نفعا في الأمور الدينية والدنيوية خصوصا في تلك البلاد الحارة، ولذلك من الله تعالى بقوله: {وأنزلنا من السماء ماء طهورا} [الفرقان: 48] كذا ذكره الطيبي، وفي الأزهار: الأفضلية من الأمور النسبية، وكان هناك أفضل لشدة الحر والحاجة وقلة الماء."

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (4 / 1342), (باب فضل الصدقة), كتاب الزكاة, الناشر: دار الفكر، بيروت - لبنان)

صحيح مسلممیں ہے:

"عن أبي هريرة، أن رجلاً قال للنبي صلى الله عليه وسلم: إن أبي مات وترك مالاً، ولم يوص، فهل يكفر عنه أن أتصدق عنه؟ قال: «نعم»".

(3/ 1254),  باب وصول ثواب الصدقات إلى الميت, كتاب الوصية, الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی علیہ السلام سے عرض کیا: میرے والد کا انتقال ہوگیا ہے اور انہوں نے اپنے پیچھے مال چھوڑا ہے، لیکن کوئی وصیت نہیں کی، اگر میں ان کی جانب سے صدقہ خیرات کردوں، کیا ان کے گناہوں کے لیے معافی کا ذریعہ ہوجائے گا؟ فرمایا: ہاں! (یعنی تمہارے صدقات سے ان کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔)

مجمع الزوائد میں ہے:

"عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال: إن النبي صلى الله عليه وسلم قال: سبع يجري للعبد أجرهن وهو في قبره بعد موته: من عَلّم علماً، أو کریٰ نهراً، أو حفر بئراً، أو غرس نخلاً، أو بنى مسجداً، أو ورّث مصحفاً، أو ترك ولداً يستغفر له بعد موته".

 (مجمع الزوائد و منبع الفوائد ، کتاب العلم ، ١ / ١٦٨ ، دار الکتاب العربی ، بیروت)

(وكذا في صحیح الجامع الصغیر و زیادته ، حدیث : ٣٦٠٢ ، المکتب الاسلامی ، بیروت)

ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سات اعمال ایسے ہیں جن کا اجر و ثواب بندے کو مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے ، حال آں کہ وہ قبر میں ہوتاہے :

(1) جس نے علم سکھایا ، (2) یا نہر کھدوائی ، (3) یا کنواں کھودا (یا کھدوایا)، (4) یا کوئی درخت لگایا ، (5) یا کوئی مسجد تعمیر کی، (6) یا قرآن شریف ترکے میں چھوڑا، (7) یا ایسی اولاد چھوڑ کر دنیا سے گیا جو مرنے کے بعد اس کے لیے دعائے مغفرت کرے ۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

"حدثنا العباس بن الوليد بن مزيد أخبرني أبي حدثنا الأوزاعي حدثني حسان بن عطية عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن العاص بن وائل أوصى أن يعتق عنه مائة رقبة فأعتق ابنه هشام خمسين رقبةً، فأراد ابنه عمرو أن يعتق عنه الخمسين الباقية، فقال حتى أسأل رسول الله صلى الله عليه وسلم فأتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله! إنّ أبي أوصى بعتق مائة رقبة وإنّ هشامًا أعتق عنه خمسين وبقيت عليه خمسون رقبةً، أفأعتق عنه؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: « إنه لو كان مسلمًا فأعتقتم عنه أو تصدقتم عنه أو حججتم عنه بلغه ذلك ».

(سنن أبي داؤد، باب ما جاء في وصية الحر يسلم وليه أيلزمه أن ینفذها : ۳/۷۸،ط:دارالکتاب العربی بیروت)

یعنی حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر تمہارا باپ اسلام کی حالت میں مرا ہوتا، پھر اگر تم اس کی طرف سے غلام آزاد کرتے، یا اس کی طرف سے صدقہ دیتے یا اس کی طرف سے حج کرتے تو اسے اس کا ثواب ضرور پہنچتا۔

فتاوی شامی میں ہے:

وَفِي الْبَحْرِ: مَنْ صَامَ أَوْ صَلَّى أَوْ تَصَدَّقَ وَجَعَلَ ثَوَابَهُ لِغَيْرِهِ مِنْ الْأَمْوَاتِ وَالْأَحْيَاءِ جَازَ، وَيَصِلُ ثَوَابُهَا إلَيْهِمْ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ كَذَا فِي الْبَدَائِعِ".

(ج؛2/ص:243 ،   مطلب فی القراءۃ للمیت واھداء ثوابھا لہ، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200358

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں