اگر کوئی شخص وفات پا گیا اور اس کے ذمہ زکوة باقی ہے اور اس کے وصیت کے بغیر اس کے ورثاء نے اس کی زکوة ادا کی تو اس کاذمہ فارغ ہوا یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں جب کہ میت نے وصیت نہیں کی تو ورثاء پر ادا کرنا واجب نہیں تھا؛ تاہم مرحوم پر واجب باقی تھا۔ اب جب ورثاء نے تبرعًا زکاۃ ادا کردی ہے تو اللہ پاک سے قبولیت کی امید رکھنی چاہیے اور دعا بھی کرنی چاہیے وہ اس کو قبول فرمالے۔
"ولو مات من علیه الزکاة لاتؤخذ من ترکته لفقد شرط صحتها و هو النیة إلا إذا أوصی بها فتعتبر من الثلث، کسائر التبرعات".
(البحرالرائق، ج:2، ص:211،ط:ایچ ایم سعید)
"ولا یخرج عن العهدة بالعزل ... ولو مات کانت میراثًا عنه".
(ردالمحتار علی الدرالمختار، ج:2، ص:270،ط:ایچ ایم سعید)
المحيط البرهاني في الفقه النعماني (2/ 301):
"ولو مات عن زكاة التجارة لا يجب عليه الأداء فيما بينه وبين ربه".
الفتاوى الهندية (1/ 176):
"قال أصحابنا - رحمهم الله تعالى - إذا مات من عليه الزكاة سقطت الزكاة بموته كذا في المحيط."
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 359):
"في الجوهرة: إذا مات من عليه زكاة أو فطرة أو كفارة أو نذر لم تؤخذ من تركته عندنا إلا أن يتبرع ورثته بذلك وهم من أهل التبرع ولم يجيزوا عليه وإن أوصى تنفذ من الثلث."
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144203200977
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن