ایک آدمی کا انتقال ہوتا ہے اور وراثت میں وہ جتنی جائیداد چھوڑ کر جاتا ہے، اتنا قرض اس پر واجب الادا ہے، یعنی مکان یا زمین کو گروی رکھا کر اس نے قرض حاصل کیا ہوا ہے، تو کیا اس کی جائیداد میں سے پہلے قرض ادا کیا جائے گا یا وہ سب وراثت میں شمار ہوگی؟
واضح رہے کہ جس شخص کا انتقال ہوجائے، شرعاً اس کے ترکہ میں چار حقوق متعلق ہوتے ہیں، جن میں سب پہلاحق میت کی تجہیز و تکفین کا ہے، دوسراحق تجہیز و تکفین کے بعد بچ جانے والے مال میں سے میت پر جو قرضہ ہو، اس کی ادائیگی کا ہے، اگرچہ اس کی ادائیگی میں سارا مال دینا پڑجائے، پھر تیسرا حق قرض کی ادائیگی کے بعد بچ جانے والے مال میں وصیت کا ہے کہ اگر میت نے کوئی جائز وصیت کی ہو، تو وہ بقیہ مال کے ایک تہائی سے پوری کی جائے گی، پھرچوتھا حق یہ ہے کہ وصیت کو پورا کرنے کے بعد جو مال بچ جائے، وہ ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے بقدر تقسیم ہوگا۔
لہٰذاصورتِ مسئولہ میں اگر کسی شخص کا انتقال ہوجائے اور اس پر اتنا قرضہ ہو، جو اس کے کل ترکہ کےبرابر ہو، تو سب سے پہلے اس کے ترکہ سے اس کی تجہیز و تکفین کا انتظام کیا جائے گا، اس کے بعد بقیہ کل مال تقسیم کرنے کے بجائے اس سےمرحوم کا قرضہ ادا کیا جائےگا۔
سراجی میں ہے:
"قال علماؤنا رحمهم الله: تتعلق بتركة الميت حقوق أربعة مرتبتة: الأول: يبدأ بتكفينه وتجهيزه من غيره تبذير ولاتقتير، ثم تقضى ديونه من جميع ما بقي من ماله، ثم تنفذ وصاياه من ثلث مابقي بعد الدين، ثم يقسم الباقي بين ورثته بالكتاب والسنة وإجماع الأمة."
(السراجي في الميراث، ص:5، 6، ط:مكتبة البشرى)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144412100723
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن