بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کے پاس تلقین کا حکم


سوال

ہمارےوالدصاحب رات کو اچانک بیمار ہوئے، تو ہم نے قریبی ہسپتال میں داخل کیا،  جہاں ڈاکٹروں نے چیک اپ کیا تو پتہ چلا کہ اس کا شوگر زیادہ ہوا تھا،  جس کی وجہ سے اس کا دل متاثر ہوا تھا،  ہم اپنے والد کے ساتھ تھے، دوپہر بارہ بجے ہم تھک گئے اور وارڈ سے باہر نکل گئے، باہر بیٹھ گئے، اس دوران ہم دونوں بھائی سو گئے تھے، ڈھائی بجے جب اٹھ گیا تو فورا وارڈ کی طرف بھاگ گیا کہ والد کو تنہا چھوڑ دیا ہے، لیکن جب وارڈ میں داخل ہوا تو والد صاحب کے ارد گرد ڈاکٹروں کا عملہ موجود تھا، ایک ڈاکٹر نے مجھے سائیڈ پر لے جاکر بتایا کہ والد کو دل کا دورہ پڑا، ہم نے بچانے کی بھرپور کوشش کی لیکن وہ جانبر نہ ہوسکا ، اب ہمیں اس بات پر سخت تشویش ہے کہ والد صاحب کو وارڈ میں تنہا چھوڑ دیا، اس کو اچانک موت ہوئی جو ہمارے وہم وگمان میں بھی نہ تھا،  اس پر سورت یسین پڑھی اور نہ کلمے کی تلقین کی، کیا ہمارا یہ عمل گناہ اور والد کی نافرمانی کے زمرے میں آتا ہے؟ اگر جواب ہاں ہے تو اس کا ازالہ کیسا ممکن ہے؟ اور کیا تلقین کلمہ کے بغیر اس کا خاتمہ بالایمان ہوا ہے یا نہیں؟ 

جواب

1: میّت کے پاس تلقین کرنا ایک مندوب عمل ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں   غیر اختیاری طورپر مرحوم کے پاس تلقین نہ کرنے کی وجہ سے مرحوم کے بیٹے قابلِ مؤاخذہ نہیں ہیں، البتہ مرحوم والد کے لیے دعاؤں اور صدقہ کرنے سے اور ان کے بعد ان عزیزوں سے صلہ رحمی کرنے سے  والد صاحب  کا حق ادا کرنے کی کوشش کی   جاسکتی ہے۔

جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:

"أبي أسيد الساعدي قال: بينا نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ جاء رجل من بني سلمة فقال: يا رسول الله هل بقي من بر أبوي شيء أبرهما به بعد موتهما؟ قال: «نعم الصلاة عليهما والاستغفار لهما وإنفاذ عهدهما من بعدهما وصلة الرحم التي لا توصل إلا بهما وإكرام صديقهما» . رواه أبو داود وابن ماجه".

(مشکوۃ المصابیح، کتاب الآداب، باب البرّ والصلۃ ، رقم الحديث:4936، ج:3، ص:1380، ط: دارالکتاب الاسلامی)

ترجمہ:  اور حضرت ابواسید ساعدی رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ رسول اللہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا جو قبائل انصار میں سے ایک قبیلہ بنو سلمہ سے تعلق رکھتا تھا اس شخص نے عرض کیا رسول اللہ میرے ماں باپ کے حسن سلوک کا کچھ حصہ ابھی باقی ہے جس کو میں ان کی وفات کے بعد پورا کروں؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں ان کے حق میں دعا کرنا (جس میں نماز جنازہ بھی شامل ہے) ان کے لیے استغفار کرنا ان کی موت کے بعد ان کی وصیت کو پورا کرنا ان کے ناطے داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا جن کے ساتھ حسن سلوک کرنا محض ان (ماں باپ) کے سبب سے ہے (یعنی ماں باپ کے وہ عزیز و اقارب جن کے ساتھ محض اس وجہ سے حسن سلوک کیا جاتا ہے تاکہ ماں باپ کی خوشنودی حاصل ہو نہ کہ کسی اور غرض سے) اور ماں باپ کے دوستوں کی عزت و تعظیم کرنا۔

2:خاتمہ بالایمان کے لیے تلقین ضروری نہیں ہے، اگر تلقین کا موقع ہے تو کرنی چاہیے، اور اگر کوئی شخص تلقین لئے بغیر انتقال کرجاتا ہے، اور بے ایمانی کی کوئی وجہ نہ ہو تو اس کا خاتمہ بالایمان ہی ہے۔

فتاویٰ شامی (الدر المختار ورد المحتار) میں ہے:

"(ويلقن) ندبا. وقيل: وجوبا (بذكر الشهادتين) لأن الأولى لا تقبل بدون الثانية (عنده) قبل الغرغرة.

(قوله ويلقن إلخ) لقوله صلى الله عليه وسلم «لقنوا موتاكم لا إله إلا الله فإنه ليس مسلم يقولها عند الموت إلا أنجته من النار» ولقوله - عليه الصلاة والسلام - «من كان آخر كلامه لا إله إلا الله دخل الجنة» كذا في البرهان أي دخلها مع الفائزين، وإلا فكل مسلم، ولو فاسقا يدخلها ولو بعد طول عذاب إمداد (قوله وقيل وجوبا) في القنية وكذا في النهاية عن شرح الطحاوي: الواجب على إخوانه وأصدقائه أن يلقنوه اهـ قال في النهر: لكنه تجوز لما في الدراية من أنه مستحب بالإجماع اهـ فتنبه (قوله بذكر الشهادتين) قال في الإمداد: وإنما اقتصرت على ذكر الشهادة تبعا للحديث الصحيح وإن قال في المستصفى وغيره ولقن الشهادتين لا إله إلا الله محمد رسول الله وتعليله في الدرر بأن الأولى لا تقبل بدون الثانية ليس على إطلاقه لأن ذلك في غير المؤمن ولهذا قال ابن حجر من الشافعية وقول جمع يلقن محمد رسول الله أيضا لأن القصد موته على الإسلام ولا يسمى مسلما إلا بهما مردود بأنه مسلم وإنما المراد ختم كلامه بلا إله إلا الله ليحصل له ذلك الثواب أما الكافر فيلقنها قطعا مع لفظ أشهد لوجوبه؛ إذ لا يصير مسلما إلا بهما اهـ.

قلت: وقد يشير إليه تعبير الهداية والوقاية والنقاية والكنز بتلقين الشهادة. وفي التتارخانية كان أبو حفص الحداد يلقن المريض بقوله: أستغفر الله الذي لا إله إلا هو الحي القيوم وأتوب إليه، وكان يقول فيها معان: أحدها توبة، والثاني توحيد، والثالث أن المريض ربما يفزع لأن الملقن رأى فيه علامة الموت ولعل أقرباء الميت يتأذون به (قوله عنده) متعلق بذكر (قوله: قبل الغرغرة) لأنها تكون قرب كون الروح في الحلقوم وحينئذ لا يمكن النطق بهما ط وفي القاموس غرغر جاد بنفسه عند الموت. اهـ.

قلت: وكأنها مأخوذة من غرغر بالماء إذا أداره في حلقه فكأنه يدير روحه في حلقه".

(کتاب الصلوۃ، باب صلوۃ الجنازۃ، مطلب في تلقين المحتضر الشهادة، ج:2، ص:190، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100261

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں