ہمارے یہاں جب کسی کی وفات ہوتی ہے تو گاؤں والے میّت کے گھر گلہ لےکر جاتے ہیں (اس کو خیرات کا نام دیتے ہیں) پھر اس کو غریبوں میں تقسیم کرتے ہیں، اور یہ لوگ پہلے سے متعین رہتے ہیں ،ہر میّت کے وقت انہی کو دیا جاتا ہے ،اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگرمذکورہ خیرات میت کے ایصالِ ثواب کے لیے کیا جاتا ہے ، کسی دن کو اس کے لیے خاص نہیں کیا جاتا،اور اس کو ہر ایک پر لازم اور ضروری بھی نہیں سمجھا جاتا ،اور نہ کرنے والوں کو ملامت بھی نہ کی جاتی ،بلکہ جو شخص اپنی خوشی سے اس میں شامل ہوتا ہو ایصال ثواب کے لیے چندہ دیتے ہوں تو مذکورہ طریقے پر خیرات کرنا جائز ہے ،بصورتِ دیگر اس سے اجتناب کرنا لازم ہے ۔
واضح رہے کہ یہ طریقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام ، تابعین اور تبع تابعین سے ثابت نہیں اس لیے اس انداز سے نہ کیا جائےبلکہ جو آدمی بھی ایصالِ ثواب کرنا چاہتا ہے وہ انفرادی طور پر کر کے میت کو ثواب پہنچا دے۔
مشکاۃالمصابیح میں ہے :
"إياكم ومحدثات الأمور فإن كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة» . رواه أحمد."
(كتاب الاِيمان ،باب الاعتصام بالكتاب السنة ،ج،1 ،ص، 58 ،ط :دارالمعرفة)
فتح الباری میں ہے :
"المحدثه" والمراد بها ما أحدث، وليس له أصلٌ في الشرع ويسمي في عرف الشرع ’’بدعة‘‘، وما کان له أصل يدل عليه الشرع فليس ببدعة، فالبدعة في عرف الشرع مذمومة بخلاف اللّغة : فإن کل شيء أحدث علي غير مثال يسمي بدعة، سواء کان محمودًا أو مذمومًا".
(باب الاقتداء بسنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،ج، 13، ص، 253 ،ط: دار المعرفة)
مرقاۃالمفاتیح میں ہے:
"والمعنى: جاءهم ما يمنعهم من الحزن عن تهيئة الطعام لأنفسهم، فيحصل لهم الضرر وهم لايشعرون. قال الطيبي: دل على أنه يستحب للأقارب والجيران تهيئة طعام لأهل الميت اهـ. والمراد طعام يشبعهم يومهم وليلتهم، فإن الغالب أن الحزن الشاغل عن تناول الطعام لايستمر أكثر من يوم، وقيل: يحمل لهم طعام إلى ثلاثة أيام مدة التعزية."
(کتاب الجنائز، باب البکاء علی المیت،الفصل الثاني،ج:4 ،ص :194 ،ط: دارالفکر)
فتاوی شامی میں ہے :
"وكل مباح يؤدي إلي السنة اوالواجب فمكروه."
(باب صلاۃ المریض ،2 ،ص ،105 ،ط :سعید)
وفیہ ایضا:
"(قوله: وباتخاذ طعام لهم) قال في الفتح ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم، لقوله - صلى الله عليه وسلم - «اصنعوا لآل جعفر طعاما فقد جاءهم ما يشغلهم» حسنه الترمذي وصححه الحاكم ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون. اهـ. مطلب في كراهة الضيافة من أهل الميت.وقال أيضا: ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة: وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال " كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة ". اهـ. وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص. والحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره."
(کتاب الصلوۃ ، باب صلوۃ الجنازۃ،2/ 240، ط : دار الفکر)
کفایت المفتی میں ہے :
"ایصالِ ثواب کے لیے صدقہ خیرات کرنااچھی بات ہے ،مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ نہ تو مال یتیموں اور نابالغوں کا ہو ،اور نہ خلافِ شریعت رسوم کے ساتھ کیا جائے ،غریب آدمیوں کو مجبور کرنا کہ وہ قرض ادھار لے کر برادری کو کھلائیں ،ورنہ ان کو طعن وتشنیع کرنا سخت گناہ کی بات ہے ۔"
(کتاب الجنائز ،ج:4،ص:68 ،ط:دارالاشاعت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144506101345
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن