بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کو کفن دینے کا طریقہ


سوال

میت کو کفن دینے کا مکمل طریقہ تحرير فرمادیں۔

جواب

واضح رہے کہ مرد کے کفن کے مسنون کپڑے تین ہیں:

1۔ازار: جو سر(ماتھے) سے پاؤں تک ہوتا ہے۔

2۔لفافہ(چادر): جو ازار سے سر اور پیروں کی طرف کچھ لمبا ہوتا ہے،تاکہ اس میں میت کو لپیٹ کر اُس کو اوپر نیچے سے باندھا جاسکے۔

3۔قمیص( کرتہ): جو گردن کی جڑ سے پاؤں تک ہوتا ہے(بغیر گریبان اور آستین کے)۔

مرد کے کفنانے کا طریقہ یہ ہے کہ چارپائی پر پہلے لفافہ(چادر) بچھاکر اُس پر ازار بچھایا جائے، پھر قمیص(کرتہ )کا نچلا حصہ بچھایا جائے اور اوپر کا باقی حصہ سمیٹ کر سرہانے کہ طرف رکھ دیا جائے، پھر میت کو غسل کے تختہ سے آہستگی سے اٹھاکر اس بچھے ہوئے کفن پر لٹادیا جائے اور قمیص کا جو حصہ سرہانے کی طرف رکھا تھا اس کو سر کی طرف اس طرح  اُلٹ کر پیروں کی طرف بڑھا دیا جائے کہ قمیص کا سوراخ (گریبان) گلے میں آجائے ، میت کوقمیص پہنانے کے بعد اُس کے بدن پرغسل کے بعد جو تہہ بند ڈالا گیا تھا، وہ نکال کر اُس کے سر اور داڑھی  پرعطر ، وغیرہ کی خوشبو لگادی جائے، اور سجدے والے اعضاء(پیشانی، دونوں ہتھیلیاں، دونوں گھٹنے، دونوں قدم) پر کافور مل دی جائے،  اس کے بعد( پہلے)ازار کا بایاں کنارہ میت کے اوپر لپیٹ دیا جائے اور پھر دایاں کنارہ لپیٹ دیا جائے؛ تاکہ دایاں کنارہ اوپر آجائے، پھر لفافہ(چادر) اسی طرح (یعنی پہلے بایاں کنارہ اور پھر دایاں کنارہ ) لپیٹ دیا جائے، پھر کپڑے کے ٹکڑوں سے کفن کو سر اور پاؤں کی طرف سے باندھ  دیا جائے، تاکہ کفن ہوا یا ہلنے سے کُھل نہ جائے۔

عورت کے کفن کے مسنون کپڑے پانچ ہیں:

1۔ازار: جو سر(ماتھے) سے پاؤں تک ہوتا ہے۔

2۔لفافہ(چادر): جو ازار سے سر اور پیروں کی طرف کچھ لمبا ہوتا ہے،تاکہ اس میں میت کو لپیٹ کر اُس کو اوپر نیچے سے باندھا جاسکے۔

3۔قمیص( کرتہ): جو گردن کی جڑ سے پاؤں تک ہوتا ہے(بغیر گریبان اور آستین کے)۔

4۔سینہ بند( جس کی چوڑائی  سینہ سے لے کر گھٹنے تک ہو۔)

5۔سربند (اوڑھنی/دوپٹہ)۔

اور عورت کے کفنانے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے لفافہ(چادر) بچھایا جائے،پھر اُس پر سینہ بند اور پھر اُس پر ازار بچھایا جائے، پھر قمیص کا نچلا حصہ  بچھایا جائے اور اوپر کا باقی حصہ سمیٹ کر سرہانے کی طرف رکھ دیا جائے ،پھر میت کو غسل کے تختہ سے آہستگی سے اٹھاکر اس بچھے ہوئے کفن پر لٹادیا جائے اور قمیص کا جو حصہ سرہانے کی طرف رکھا تھا اس کو سر کی طرف اس طرح  اُلٹ کر پیروں کی طرف بڑھا دیا جائے کہ قمیص کا سوراخ (گریبان) گلے میں آجائے ، میت کوقمیص پہنانے کے بعد اُس کے بدن پرغسل کے بعد جو تہہ بند ڈالا گیا تھا، وہ نکال کر اُس کے سر پرعطریا زعفران وغیرہ کی خوشبو لگادی جائے، اور سجدے والے اعضاء(پیشانی، دونوں ہتھیلیاں، دونوں گھٹنے، دونوں قدم) پر کافور مل دی جائے،  پھر سر کے بالوں کو دو حصے کرکے قمیص کے اوپر سینہ پر اس طرح  ڈال دیے جائے کہ ایک حصہ دائیں طرف اور دوسرا بائیں طرف ہو، پھر سربند(اوڑھنی) سر اور بالوں پر ڈال دیا جائے،اس کے بعد پہلے ازار کا بایاں کنارہ میت کے اوپر لپیٹ دیا جائے اور پھر دایاں کنارہ لپیٹ دیا جائے، پھر لفافہ(چادر) اسی طرح (یعنی پہلے دایاں کنارہ اور پھر بایاں کنارہ ) لپیٹ دیا جائے، پھر کپڑے کے ٹکڑوں سے کفن کو سر اور پاؤں کی طرف سے باندھ  دیا جائے، تاکہ کفن ہوا یا ہلنے سے کُھل نہ جائے۔( احکامِ میت ملخصاً بتغییر یسیر)

مندرجہ بالا طریقہ کے مطابق سینہ بند ازار کے اوپر اور لفافہ( چادر) کے اندر ہوگا، لیکن اگر اس کو قمیص( کرتہ) کے اوپر ازار سے پہلے باندھ دیا جائے، تب بھی جائز ہے، اور اگر تمام کپڑوں کے  اوپر( یعنی لفافہ کے بھی اوپر) باندھ دیا جائے تو بھی درست ہے، لیکن بہتر طریقہ وہی ہے جو اوپر ذکر کیا گیا۔

فتاوٰی شامی میں ہے:

"(ويسن في الكفن له إزار وقميص ولفافة...(ولها درع) أي قميص (وإزار وخمار ولفافة وخرقة تربط بها ثدياها) وبطنها... (تبسط اللفافة) أولا (ثم يبسط الإزار عليها ويقمص ويوضع على الإزار ويلف يساره ثم يمينه ثم اللفافة كذلك) ليكون الأيمن على الأيسر.(وهي تلبس الدرع ويجعل شعرها ضفيرتين على صدرها فوقه) أي الدرع (والخمار فوقه) أي الشعر (تحت اللفافة) ثم يفعل كما مر (ويعقد الكفن إن خيف انتشاره).

وفي الرد: (قوله إزار إلخ) هو من القرن إلى القدم، والقميص من أصل العنق إلى القدمين بلا دخريص وكمين، واللفافة تزيد على ما فوق القرن والقدم ليلف فيها الميت وتربط من الأعلى والأسفل إمداد. والدخريص: الشق الذي يفعل في قميص الحي ليتسع للمشي...(قوله وخمار) بكسر الخاء ما تغطي به المرأة رأسها قال الشيخ إسماعيل ومقداره حالة الموت ثلاثة أذرع بذراع الكرباس يرسل على وجهها، ولا يلف كذا في الإيضاح والعتابي. اهـ. (قوله وخرقة) والأولى أن تكون من الثديين إلى الفخذين نهر عن الخانية...(قوله: ويقمص) أي الميت أي يلبس القميص بعد تنشيفه بخرقة كما مر (قوله: ويلف يساره ثم يمينه) الضميران للإزار وأشار به إلى أن كلا من الإزار واللفافة يلف وحده لأنه أمكن في الستر. ط. (قوله: ليكون الأيمن على الأيسر) اعتبارا بحالة الحياة. إمداد.(قوله: تحت اللفافة) الأوضح تحت الإزار.(قوله: ثم يفعل كما مر) أي بأن توضع بعد إلباس الدرع والخمار على الإزار، ويلف يساره إلخ قال في الفتح: ولم يذكر الخرقة وفي شرح الكنز فوق الأكفان كي لا تنتشر، وعرضها ما بين ثدي المرأة إلى السرة، وقيل ما بين الثدي إلى الركبة، كي لا ينتشر الكفن عن الفخذين وقت المشي، وفي التحفة تربط الخرقة فوق الأكفان عند الصدر فوق الثديين اهـ وقال في الجوهرة وقول الخجندي: تربط الخرقة على الثديين فوق الأكفان يحتمل أن يراد به تحت اللفافة وفوق الإزار والقميص وهو الظاهر اهـ وفي الاختيار: تلبس القميص ثم الخمار فوقه ثم تربط الخرقة فوق القميص اهـ ومفاد هذه العبارات الاختلاف في عرضها، وفي محل وضعها وفي زمانه تأمل."

(كتاب الصلوٰۃ، باب صلوٰۃ الجنازۃ، مطلب في الكفن، 2/202۔204، ط: سعید)

مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے:

الأول: و هو كفن الرجل سنة ثلاثة أثواب: قميص من أصل العنق إلى القدمين بلا دخريص وكمين. وإزار من القرن إلى القدم. والثالث لفافة تزيد على ما فوق القرن والقدم ليلف بها الميت وتربط من أعلاه وأسفله... وتبسط اللفافة ثم الإزار فوقها ثم يوضع الميت مقمصا ثم يعطف عليه الإزار ولف الإزار من جهة يساره ثم من جهة يمينه ليكون اليمين أعلى ثم فعل باللفافة كذلك اعتبارا بحالة الحياة وعقد الكفن إن خيف انتشاره صيانة للميت عن الكشف وتزاد المرأة على ما ذكرناه للرجل في كفنها على جهة السنة خمارا لوجهها ورأسها وخرقة عرضها ما بين الثدي إلى السرة وقيل إلى الركبة كيلا ينتشر الكفن بالفخذ وقت المشي بها لربط ثدييها فسنة كفنها درع وإزار وخمار وخرقة ولفافة...ويجعل شعرها ضفيرتين وتوضعان على صدرها فوق القميص ثم يوضع الخمار على رأسها ووجهها فوقه أي القميص فيكون تحت اللفافة ثم تربط الخرقة فوقها لئلا تنتشر الأكفان وتعطف من اليسار ثم من اليمين."

(كتاب الصلوة، باب أحكام الجنائز، ص: 218۔216، ط: المكتبة العصرية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144307102516

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں