بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وبا کے پھیلنے کے اندیشے کی وجہ سے میت کو جلانے کا حکم


سوال

شریعتِ مطہرہ میں تو ہرمسلمان کو ہرحال میں دفنانے کا حکم ہے، دریافت طلب امریہ ہے کہ کیاوبائی امراض سے مرنے والے مسلمان شخص کو احتیاطی تدابیر کے پیشِ نظر جلاناجائز ہے؟

جواب

مسلمان میت کو اس کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے دفن کرنا میت کے مسلمان رشتہ داروں اور اردگرد کے مسلمانوں کے ذمے فرضِ کفایہ ہے، اگر میت کا علم ہونے اور  اس کی تدفین پر قدرت کے باوجود میت کو دفن نہیں کیا گیا تو ایسے مسلمان فرض کے تارک اور گناہ گار ہوں گے، نیز شریعت  میں کسی میت کو بیماری کے پھیلنے کے خوف  یا کسی اور بنا  پر جلانا ہرگزجائز نہیں، بلکہ یہ مشرکانہ رسم کا تاثر ہے،میت کو جلانایہ میت کی سخت توہین ہے ، احادیثِ   مبارکہ میں کسی کو جلانے سے صراحتًا ممانعت آئی ہے، اس  لیے کہ آگ جہنم کا عذاب ہے، اور آگ میں جلانے کا حق صرف خالقِ کائنات کو حاصل ہے،  دنیا میں کسی کو بھی آگ میں جلانا جائز نہیں ہے خواہ وہ کافر ہوں یا جانور وغیرہ چہ جائیکہ مسلمان کی میت کو جلایا جائے۔

سنن  ابی داؤد میں ہے:

"حدثنى محمد بن حمزة الأسلمى عن أبيه أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أمره على سرية قال فخرجت فيها وقال « إن وجدتم فلانا فاحرقوه بالنار ». فوليت فنادانى فرجعت إليه فقال:إن وجدتم فلانا فاقتلوه ولا تحرقوه فإنه لا يعذب بالنار إلا رب النار".

ترجمہ :حضرت حمزہ اسلمی سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک دستہ کا امیر مقرر فرما دیا پس میں نکلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر فلاں شخص کو پاؤ تو اس کو آگ میں جلا دینا ،جب میں چلنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز دی، پس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم فلاں شخص کو پاؤ تو اس کو قتل کرنا،جلانا مت؛ کیوں کہ آگ کا عذاب وہی دے گا جو آگ کا پیدا کرنے والا ہے۔

سنن ابی داؤدکی دوسری روایت میں ہے :

"عن عبد الرحمن بن عبد الله عن أبيه قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فى سفر فانطلق لحاجته فرأينا حمرة معها فرخان فأخذنا فرخيها فجاءت الحمرة فجعلت تفرش فجاء النبى صلى الله عليه وسلم فقال: « من فجع هذه بولدها ردوا ولدها إليها ». ورأى قرية نمل قد حرقناها فقال: « من حرق هذه؟ »  قلنا: نحن. قال: « إنه لاينبغى أن يعذب بالنار إلا رب النار »".

ترجمہ:حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ ہم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم کے ساتھ سفر میں تھے ،آپ صلی اللہ علیہ  وسلم قضاءِ  حاجت کے لئے تشریف لے گئے ہم نے ایک چڑیا دیکھی جس کے دو بچے تھے ہم نے ان بچوں کو پکڑ لیا تو چڑیا زمین پر گر کر پر بچھانے لگی، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا:  اس کا بچہ پکڑ کر کس نے اس کو بے قرار کیا؟ اس کا بچہ اس کو  دے دو!  اور آپ صلی اللہ علیہ  وسلم نے چیونٹیوں کا ایک سوراخ دیکھا جس کو ہم نے جلادیا تھا آپ صلی اللہ علیہ  وسلم نے دریافت فرمایاکہ یہ کس نے جلایا؟ ہم نے کہا:  ہم نے جلایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ  وسلم نے فرمایا:  کسی کے  لیے یہ بات  روا نہیں کہ وہ آگ سے تکلیف پہنچائے سوائے آگ کے پیدا کرنے والے کے۔ 

کفایت المفتی میں ہے:

"مسلمان کے لیے میت کو دفن کرنے کے بجائے جلانا حرام ہے خواہ مرض وبائی کے عذر سے ہو"۔

(کتاب الجنائز  4 /63، دارالاشاعت کراچی، بعنوان: میت کو جلانا جائز نہیں)۔

شرح أبي داود للعيني - (6 / 158):

"قوله: "كسر عظم الميت " مبتدأ وخبره هو "ككسره حيا "، والمعنى أن حرمة بني آدم سواء في الحالتين، فكما لا يجور كسر عظم الحي فكذلك كسر عظم الميت،. وذكر صاحب "الخلاصة": " ولا تكسرُ عظام اليهود إذا وجدت في قبورهم " فعُلِم من هذا أن عظم الميت له حرمة سواء كان مسلما أو كافرا".

عون المعبود شرح سنن أبي داود (مراجع) - (9 / 24):

"( ككسره حيا )" يعني في الإثم كما في رواية . قال الطيبي : إشارة إلى أنه لا يهان ميتا كما لا يهان حيا . قال ابن الملك : وإلى أن الميت يتألم . قال ابن حجر : ومن لازمه أنه يستلذ بما يستلذ به الحي انتهى . وقد أخرج ابن أبي شيبة عن ابن مسعود قال " أذى المؤمن في موته كأذاه في حياته " قاله في المرقاة".

فيض القدير شرح الجامع الصغير - (4 / 720):

"(كسر عظم الميت) المسلم المحترم (ككسر عظم الحي في الإثم) لأنه محترم بعد موته كاحترامه حال حياته قال ابن حجر في الفتح : يستفاد منه أن حرمة المؤمن بعد موته باقية كما كانت في حياته".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200395

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں