بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کو غسل دینے سے قبل اس کے قریب تلاوت کرنا


سوال

میت کو غسل دینے سے پہلے یا غسل کے وقت اگر میت کپڑے سے ڈھانکا ہوا ہو لیکن صرف چہرہ کھلا ہوا ہو تو کیا اس کے پاس قرآن مجید کی تلاوت کرنا جائز ہے یا نہیں ہے؟ جواب با حوالہ چاہیے۔

جواب

میت کو غسل دینے سے پہلے اس کے قریب تلاوت کرنا مکروہ ہے، تاہم اگر غسل دینے سے پہلے میت کے مکمل بدن  کو (بشمول چہرے کے ) کپڑے سے ڈھانک دیا گیا ہو تو تلاوت کی جا سکتی ہے، ورنہ کراہت ہو گی۔

غسل کے بعد میت کے قریب تلاوت کرنا بلا کراہت جائز ہے۔

غسل کے وقت اگر میت کو کپڑے سے ڈھانکا نہ گیا ہو جیسا کہ عام طور پر دورانِ غسل مکمل جسم کو  کپڑے  سے ڈھانپا نہیں جاتا تو ایسی صورت میں بھی میت کے قریب تلاوت کرنا مکروہ ہو گا۔

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"(الجواب) میت کو غسل دینے سے قبل اس کے پا س قرآن پاک کی تلاوت مکروہ اور منع ہے البتہ تسبیح پڑھی جاسکتی ہے ، نور الا یضاح میں  ہے: ویکرہ قراء ۃ القرآن عندہ حتی یغسل ۔ یعنی جب تک غسل نہ دیا جائے اس کے پاس تلاوت کلام پاک مکروہ ہے ۔(نور الا یضاح، ص ۱۳۳، باب احکام الجنائز)(درمختار مع شامی، ص:۸۰۰، ج:۱،  مطلب الحاصل فی القرأ ۃ عند ا  لمیت )

 کیونکہ میت ضروری حاجت مثلاً پیشاب پاخانہ کی ناپاکی سے شاید ہی بچ سکتا ہے اس لئے غسل سے قبل اس کے پاس قرآن کریم نہ پڑھے ۔ دوسرے کمرہ میں  اور دور بیٹھ کر تلاوت کرنا جائز ہے ، شامی میں  ہے: وذکر ان محل الکراھة اذا کان قریباًمنه اما اذا بعد عنہ بالقراءۃ فلا کراھةاھ (شامی، ج:۱،  ص:۸۰۰،  ایضاً)."

(فتاویٰ رحیمیہ ، جلد:7، صفحہ:108، ط: دار الاشاعت)

       فتاوی شامی میں ہے:

"ويقرأ عنده القرآن إلى أن يرفع إلى الغسل، كما في القهستاني معزياً للنتف. قلت: وليس في النتف إلى الغسل بل إلى أن يرفع فقط، وفسره في البحر برفع الروح. وعبارة الزيلعي وغيره: تكره القراءة عنده حتى يغسل، وعلله الشرنبلالي في إمداد الفتاح؛ تنزيهاً للقرآن عن نجاسة الميت لتنجسه بالموت، قيل: نجاسة خبث، وقيل: حدث، وعليه فينبغي جوازها كقراءة المحدث.

(قوله: كقراءة المحدث) …… [تنبيه] الحاصل أن الموت إن كان حدثاً فلا كراهة في القراءة عنده، وإن كان نجساً كرهت، وعلى الأول يحمل ما في النتف، وعلى الثاني ما في الزيلعي وغيره. وذكر ط أن محل الكراهة إذا كان قريباً منه، أما إذا بعد عنه بالقراءة فلا كراهة. اهـ.قلت: والظاهر أن هذا أيضاً إذا لم يكن الميت مسجى بثوب يستر جميع بدنه ؛لأنه لو صلى فوق نجاسة على حائل من ثوب أو حصير لايكره فيما يظهر، فكذا إذا قرأ عند نجاسة مستورة، وكذا ينبغي تقييد الكراهة بما إذا قرأ جهراً، قال في الخانية: وتكره قراءة القرآن في موضع النجاسة كالمغتسل والمخرج والمسلخ وما أشبه ذلك، وأما في الحمام فإن لم يكن فيه أحد مكشوف العورة وكان الحمام طاهراً لا بأس بأن يرفع صوته بالقراءة، وإن لم يكن كذلك فإن قرأ في نفسه ولايرفع صوته فلا بأس به ولا بأس بالتسبيح والتهليل وإن رفع صوته اهـ".

(2 / 193، کتاب الصلوٰۃ، باب  صلاۃ الجنازۃ، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308102140

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں