بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کو دفن کرنے کے بجائے کسی کمرے میں رکھ دینے کا حکم


سوال

ہمارے ایک استاذ کامصر میں انتقال ہو گیا ، کچھ ان کے رشتہ دار بھی ان کے ساتھ تھے، ان کو وہاں ہی دفنایا گیا، مگر بعد میں پتہ چلا کہ وہاں دفناتے نہیں ہے، بلکہ چھوٹے چھوٹے روم بنے ہوۓ ہے اور اس میں تین آدمی کے لیے  جگہ ہے، یعنی اس کے اندر رکھ دیتے ہے اور باہر سے تالا لگا دیتے ہیں اور لکھ دیتے ہیں کہ بھر گیا، جاننا یہ ہے کہ کیا یہ صحیح ہے یا نہیں؟ اور اگر صحیح نہیں ہے تو کیا کرنا چاہیے؟

جواب

جب کسی شخص کا انتقال ہو جاتا ہے تو اس کی تدفین مسلمانوں پر فرضِ کفایہ ہے اور دفن کی تعریف کتابوں میں یوں لکھی ہے: "میت کو مٹی میں چھپانا۔"

اس لیے ضروری ہے کہ میت کو زمین میں دفنایا جائے، اِسی پر دفن کی تعریف بھی صادق آتی ہے اور یہی حضرت آدم علی نبینا و علیہ الصلاۃ والسلام سے اب تک  متوارث طریقہ چلا آ رہا ہے، حتیٰ کہ بلا عذر میت کو تابوت میں دفن کرنے کو  بھی فقہاء نے  مکروہ لکھا  ہے، چہ جائیکہ میت کو کسی چھوٹے کمرے میں ڈال دیا جائے۔

پھر سوال میں جس طریقہ کا ذکر کیا گیا ہے اِس میں ایک خرابی یہ بھی ہے کہ اس طریقہ میں  ایک ہی روم میں ایک سے زائد میت کو رکھا جاتا ہے اور فقہاء کی تصریحات کے مطابق  بلا ضرورت ایک ہی قبر میں ایک سے زائد مُردوں کو دفن کرنا مکروہ ہے۔

باقی سوال میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ وہ چھوٹے کمرے  کس نوعیت کے ہوتے ہیں   اور اس کی کیفیت کیا ہوتی ہے،  اگر  اس کمرے کی کیفیت یہ ہو کہ زیرِ زمین  قبر نما ہی کوئی کمرہ بنایا  گیا  ہو تو وہی کمرہ قبر شمار ہو گی، لیکن اگر ایسا نہ ہو، بلکہ زمین کے اوپر والے حصے پر ہی کمرہ بنایا جاتا ہو  تو  چوں کہ قبر کے لیے زمین کی ظاہری سطح کو کم از کم انسان کی آدھی قد و قامت کے بقدر گہرا کھود کر  بنانا ضروری ہے، اس لیے زمین کے اوپر بنے کمرے  میں مردے کو رکھنا قبر میں دفنانا نہیں کہلائے گا   اور یہ تدفین  کے مسنون و متوارث طریقے کے خلاف ہے؛  اس لیے ایساکرنا جائز نہیں ہے۔

اب اس میت کو اس جگہ سے نکال کر قبر میں دفن کیا جائے گا یا نہیں؟  اس کے لیے کمرے کی کیفیت تفصیل سے لکھیں۔ نیز یہ وضاحت بھی مناسب ہوگی کہ کیا کمرے میں رکھنا بطورِ امانت ہوتا ہے  اور پھر کچھ وقت کے بعد غیر ملکی اموات کو ان کے وطن بھیج دیا جاتا ہے یا مستقل طور پر یوں ہی رکھ کر چھوڑ دیتے ہیں؟

الموسوعة الفقهية الكويتية (21/ 8):

"دفن

التعريف:

1 - الدفن في اللغة بمعنى المواراة والستر. يقال: دفن الميت واراه، ودفن سره: أي كتمه  .

و في الاصطلاح: مواراة الميت في التراب."

الموسوعة الفقهية الكويتية (2/ 147، بترقيم الشاملة آليا):

"الدّفن في التّابوت

14 - يكره دفن الميّت في تابوت بالإجماع ؛ لأنّه بدعة ، ولا تنفّذ وصيّته بذلك ، و لايكره للمصلحة ، ومنها الميّت المحترق إذا دعت الحاجة إلى ذلك."

حلبی کبیر میں ہے:

"و لایجوز أن یدفن اثنان أو أکثر فی قبر واحد إلا عند الضرورة." (صفحہ نمبر 606)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201008

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں