بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کی طرف سے زکوۃ کے لیے الگ کی ہوئی رقم کا حکم


سوال

زکات کی رقم نکال کر الگ رکھ  دی گئی۔ انتقال ہو جانے کی صورت میں کیا وہ زکات کی رقم میراث میں شامل ہوگی ؟

جواب

بصورتِ مسئولہ اگر مرحوم نے انتقال سےپہلے زکوۃ  کی رقم الگ کرکے زکوۃ اداکرنے کی وصیت کی ہے تو وہ رقم زکوۃ میں دینا ضروری ہے بشرطیکہ وہ رقم کل ترکہ کے ایک تہائی سے زائد نہ ہو،  ورنہ زائد رقم میں وارثوں کی رضامندی  ضروری ہوگی، اگر سب ورثہ بالغ ہوں تو ان کی اجازت سے ایک تہائی سے زائد حصے میں وصیت نافذ ہوجائے گی، اور اگر ورثہ میں کچھ نابالغ بھی ہوں تو بالغ ورثہ کی رضامندی کی صورت میں صرف ان ہی کے حصے میں یہ وصیت معتبر ہوگی۔ 

اور اگر مرحوم نے زکوۃ کی ادائیگی کی وصیت ہی نہیں کی ہے تو مذکورہ رقم ترکہ(میراث)میں شامل ہوکر ورثاء میں تقسیم کی جائے گی، کیوں کہ زکات کی نیت سے رقم الگ کرنے سے، رقم ملکیت سے نہیں نکلتی، لہٰذا زندگی میں بھی وہ اس رقم کو ذاتی مصرف میں لاسکتاہے، زکات تب ادا ہوتی ہے جس وہ کسی فقیر یا فقیر کے وکیل کے حوالے کردے۔

البحرالرائق میں ہے:

"ولو مات من علیه الزکاة لاتؤخذ من ترکته لفقد شرط صحتها و هو النیة إلا إذا أوصی بها فتعتبر من الثلث، کسائر التبرعات". (البحرالرائق، ج:2، ص:211،ط:ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولا یخرج عن العهدة بالعزل ... ولو مات کانت میراثًا عنه". (ردالمحتار علی الدرالمختار، ج:2، ص:270،ط:ایچ ایم سعید) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144111200013

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں