بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کی طرف سے تبرعاً فدیہ دینے کی صورت میں میت کے بھائی کو فدیہ دینا، ایک تہائی سے زائد میں وصیت کا حکم


سوال

1. میرا اٹھارہ سال کا بھائی جو کہ کچھ دن قبل کینسر کی بیماری کی وجہ سے شہید ہو گیا، جس سے تقریباً ڈھائی مہینے شدید تکلیف کی بناء پر نمازیں قضاء ہو گئیں، آج کل کے حساب سے فدیہ کتنا ہو گا؟

2. کیا والد صاحب اپنے پیسوں سے میت کی طرف استحساناً فدیہ دے سکتے ہیں یا نہیں؟ اگر دے سکتے ہیں تو کیا کسی اور مستحق زکوۃ بھائی (میت کا بھائی اور فدیہ دینے والے کا بیٹا)کو  دے سکتا ہے؟

3. نیز بھائی مرحوم نے موت سے دس دن قبل (تقریبًا  جب  زندگی سے مایوس ہو چکا تھا) کل پانچ ہزار (جو کہ اس کا کل سرمایہ تھا) صدقہ کرنے کی وصیت کی، اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

1. ایک نماز  کا فدیہ ایک صدقۂ فطر کے برابر ہے،   اور ایک صدقۂ  فطر تقریباً پونے دو کلو گندم یا آٹا یا اس کی قیمت ہے، لہذا فدیہ ادا کرتے وقت دو کلو گندم یا آٹے کی موجودہ قیمت معلوم کرکے فدیہ ادا کریں، اور وتر کی نماز کے ساتھ روزانہ کے چھ فدیے ہیں۔

2. اگر مرحوم کے ذمہ کچھ نمازیں یا روزے باقی ہوں اور اس نے اس کا فدیہ ادا کرنے کی وصیت نہ کی ہو تو ورثاء پر فدیہ ادا کرنا لازم  نہیں، البتہ ادا کرنے سے ادا ہوجائے گا اور میت پر بڑا احسان ہوگا؛ لہٰذا  اگر سائل کے والد اپنے مرحوم بیٹے کی نمازوں کا فدیہ ادا کرنا چاہتے ہیں تو کر سکتے ہیں اور اپنے بیٹے (یعنی مرحوم کے مستحقِ زکوۃ بھائی) کو بھی یہ رقم دے سکتے ہیں۔

3. مرحوم  کی جائز وصیت پر (قرضوں کی ادائیگی کے بعد) اس کے ترکہ میں سے ایک تہائی حصے کے بقدر عمل کرنا لازم ہے، ایک تہائی حصے سے زیادہ میں اس کی وصیت پر عمل کرنا ورثاء پر لازم نہیں ہے۔اگر مرحوم نے کل ترکہ کو صدقہ کرنے کی وصیت کی ہو تو یہ ایک تہائی ترکہ سے زائد میں وصیت کا نفاذ ورثاء کی اجازت پر موقوف ہو گا، لہذا زیرِ نظر مسئلہ میں  اگر تمام بالغ ورثاء پانچ ہزار روپے کو صدقہ کرنے پر راضی ہوں تو اس رقم کو صدقہ کیا جا سکتا ہے، ورنہ پانچ ہزار کا ایک تہائی یعنی 1666.67 روپے میں وصیت نافذ کر کے اس کو صدقہ کرنا لازم ہو گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وإن) لم يوص  و (تبرع وليه به جاز) إن شاء الله ويكون الثواب للولي اختيار

(قوله إن شاء الله) قبل المشيئة لا ترجع للجواز بل للقبول كسائر العبادات وليس كذلك، فقد جزم محمد - رحمه الله - في فدية الشيخ الكبير وعلق بالمشيئة فيمن ألحق به كمن أفطر بعذر أو غيره حتى صار فانيا، وكذا من مات وعليه قضاء رمضان وقد أفطر بعذر إلا أنه فرط في القضاء وإنما علق لأن النص لم يرد بهذا كما قاله الأتقاني، وكذا علق في فدية الصلاة لذلك، قال في الفتح والصلاة كالصوم باستحسان المشايخ"

(کتاب الصوم، 425/2/ سعید)

فتاوى هنديہ میں ہے:

"ثم تصح الوصية لأجنبي من غير إجازة الورثة، كذا في التبيين. ولاتجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية ... ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزها الورثة."

(کتاب الوصایا، 90/6/ دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100512

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں