بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کے ترکہ میں ٹی وی کا حکم


سوال

 مرحوم کی اشیاء میں ایک ٹی وی ہے اس ٹی وی کا کیا حکم ہے کیا اسے توڑ دینا چاہیے یا اسے کسی کو بیچ دینا چاہیے یا اسے خود کے استعمال میں لے لیں کیا اس سے مرحوم گنہگار تو نہیں ہوگا برائے مہربانی وضاحت کریں کہ ہم ٹی وی کا کیا کریں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگرمرحوم کے ترکہ میں موجود ٹی وی کا  بطور اسکرین یا ایل سی ڈی (LCD)جائز کاموں میں استعمال ممکن ہو تو اس ٹی وی کو مرحوم کے ورثاء میں تقسیم کرنا جائز ہوگا اور اس کے جائز استعمال کی اجازت ہوگی، اور اگر اس ٹی وی کا جائز استعمال ممکن نہیں ہے تو یہ ٹی وی فقط معصیت کا آلہ ہے، اس کا حکم یہ ہے کہ یا تو اسے تمام ورثاء کی اجازت سے ضائع کر دیا جائےیا اسے کسی غیر مسلم کو فروخت کر دیا جائےتاکہ کسی مسلمان کو بیچنے کی صورت میں گناہ پر اعانت کا سبب نہ بنے۔

ایک صورت یہ بھی ہے کہ اس ٹی وی کو کھول کر اس کے پرزوں کو علیحدہ کر لیا جائے، پھر جو پرزہ کسی مباح کام میں استعمال ہو سکتا ہواسے استعمال بھی کیا جا سکتا ہے اور بیچا بھی جا سکتا ہے۔

جائز استعمال سے مراد ایسا استعمال ہے جس میں جاندار کی تصویر، موسیقی یا اس جیسی کو اور شرعی قباحت نہ پائی جاتی ہو۔

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"(ويكره) تحريما (بيع السلاح من أهل الفتنة إن علم) لأنه إعانة على المعصية (وبيع ما يتخذ منه كالحديد) ونحوه يكره لأهل الحرب (لا) لأهل البغي لعدم تفرغهم لعمله سلاحا لقرب زوالهم، بخلاف أهل الحرب زيلعي.

قلت: وأفاد كلامهم أن ما قامت المعصية بعينه يكره بيعه تحريما وإلا فتنزيها نهر".

وفي الرد:

"مطلب في كراهة بيع ما تقوم المعصية بعينه :...(قوله: لأنه إعانة على المعصية) ؛ لأنه يقاتل بعينه، بخلاف ما لا يقتل به إلا بصنعة تحدث فيه كالحديد، ونظيره كراهة بيع المعازف؛ لأن المعصية تقام بها عينها، ولا يكره بيع الخشب المتخذة هي منه، وعلى هذا بيع الخمر لا يصح ويصح بيع العنب. والفرق في ذلك كله ما ذكرنا فتح ومثله في البحر عن البدائع، وكذا في الزيلعي لكنه قال بعده وكذا لا يكره بيع الجارية المغنية والكبش النطوح والديك المقاتل والحمامة الطيارة؛ لأنه ليس عينها منكرا وإنما المنكر في استعمالها المحظور. اهـ.

قلت: لكن هذه الأشياء تقام المعصية بعينها لكن ليست هي المقصود الأصلي منها، فإن عين الجارية للخدمة مثلا والغناء عارض فلم تكن عين النكر، بخلاف السلاح فإن المقصود الأصلي منه هو المحاربة به فكان عينه منكرا إذا بيع لأهل الفتنة، فصار المراد بما تقام المعصية به ما كان عينه منكرا بلا عمل صنعة فيه، فخرج نحو الجارية المغنية؛ لأنها ليست عين المنكر، ونحو الحديد والعصير؛ لأنه وإن كان يعمل منه عين المنكر لكنه بصنعة تحدث فلم يكن عينه،...(قوله: نهر) عبارته: وعرف بهذا أنه لا يكره بيع ما لم تقم المعصية به كبيع الجارية المغنية والكبش النطوح والحمامة الطيارة والعصير والخشب الذي يتخذ منه العازف".

(‌‌‌‌كتاب الجهاد، باب البغاة، مطلب في كراهة بيع ما تقوم المعصية بعينه، 4/ 268، ط: سعيد)

وفي التنوير مع الدر أيضاً:

"(و) جاز (بيع عصير) عنب (ممن) يعلم أنه (يتخذه خمرا) لأن المعصية لا تقوم بعينه بل بعد تغيره وقيل يكره لإعانته على المعصية ونقل المصنف عن السراج والمشكلات أن قوله ممن أي من كافر أما بيعه من المسلم فيكره ومثله في الجوهرة والباقاني وغيرهما زاد القهستاني معزيا للخانية أنه يكره بالاتفاق".

(‌‌‌‌حاشية ابن عابدين، كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، 6/ 391، أيضاً)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501102301

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں