بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کے لواحقین کے رونے سے میت کو عذاب ہونا


سوال

کیا میت کے لواحقین کے رونے کی وجہ سے میت کو عذاب ہوتا رہتا ہے؟  ہم سے عبد ان نے بیان کیا ،  انہوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا ،  انہوں نے کہا کہ ہم کو ابن جریج نے خبر دی ،  انہوں نے کہا کہ مجھے عبداللہ بن عبیداللہ بن ابی ملیکہ نے خبر دی کہ عثمان رضی اللہ عنہ کی ایک صاحبزادی ( ام ابان ) کا مکہ میں انتقال ہو گیا تھا۔ ہم بھی ان کے جنازے میں حاضر ہوئے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بھی تشریف لائے۔ میں ان دونوں حضرات کے درمیان میں بیٹھا ہوا تھا یا یہ کہا کہ میں ایک بزرگ کے قریب بیٹھ گیا اور دوسرے بزرگ بعد میں آئے اور میرے بازو میں بیٹھ گئے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے عمرو بن عثمان سے کہا ( جو ام ابان کے بھائی تھے ) رونے سے کیوں نہیں روکتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے کہ میت پر گھر والوں کے رونے سے عذاب ہوتا ہے۔

جواب

آپ نے سوال میں جو حدیث ذکر کی ہے یہ بخاری شریف کی روایت ہے اور اس روایت کا صحیح  مفہوم یہ  ہے کہ جو شخص اپنی زندگی میں لوگوں کو یہ وصیت کرتا ہو کہ میرے مرنے کے بعد میری میت پر نوحہ کرنا اور خوب رونا، ایسے آدمی کو اس کی وصیت کرنے کی وجہ سے قبر میں عذاب ہوتا ہے۔ اگر کسی نے ورثہ کو نوحہ  کرنے کی وصیت نہ کی ہو، بلکہ وہ خود اسے ناپسند کرتاہو تو  ورثہ کے رونے کی سزا اسے نہیں ملے گی۔

اس روایت کے دیگر طُرُق   اور  نصوص کو مدنظر رکھ کر اس  کی اورتاویلیں بھی بیان کی گئی ہیں،  شارحینِ حدیث  نے  یہاں بہت کچھ تفصیل بیان کی ہے،  اہلِ علم شروحِ حدیث کی طرف مراجعت کرسکتے ہیں۔

صحيح البخاري (2/ 79):

"حدثنا عبدان، حدثنا عبد الله، أخبرنا ابن جريج، قال: أخبرني عبد الله بن عبيد الله بن أبي مليكة، قال: توفيت ابنة لعثمان رضي الله عنه بمكة، وجئنا لنشهدها وحضرها ابن عمر، وابن عباس رضي الله عنهم، وإني لجالس بينهما - أو قال: جلست إلى أحدهما، ثم جاء الآخر فجلس إلى جنبي - فقال عبد الله بن عمر رضي الله عنهما لعمرو بن [ص:80] عثمان: ألا تنهى عن البكاء فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إن الميت ليعذب ببكاء أهله عليه»،

مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5/ 483):

" السابع أنه فيمن أوصى به أهله وهو أخص من الذي قبله، وهذا قول الجمهور، كما قال النووي، قالوا: كان ذلك معروفاً من العرب، فإنهم كانوا يوصون أهليهم بالبكاء والنوح عليهم، وهو موجود في أشعارهم، كقول طرفة بن العبد:

إذا مت فابكيني بما أنا أهله ... وشق علي الجيب يا ابنة معبد

ومثل هذا كثير في أشعارهم، وإذا كان كذلك فالميت إنما تلزمه العقوبة بما تقدم في ذلك من أمره إياهم بذلك وقت حياته."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208201270

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں