ہمارے ہاں اگر کوئی فوت ہو جائے تو چند لوگ مثلا 15- 20 لوگ مل کر غسل اور تدفین میں شامل ہوتے ہیں اور وہ ایک دوسرے پر ہی لازم سمجھتے ہیں کہ تدفین میں شامل ہونا ہے، اگر کوئی شامل نہ ہو تو اسے ملامت کیا جاتا ہے، نیز مذکورہ لوگ میت کے مہمانوں کے لیے کھانے کا انتظام کرتے ہیں، اس کھانے کو خود بھی کھاتے ہیں، میت والوں کے مہمانوں کو بھی کھلاتے ہیں، اس کھانے کا جتنا خرچہ ہو اس کو میت کے گھر والوں کے علاوہ برابر تقسیم کرتے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ مذکورہ طریقہ شرعا جائز ہے کہ لوگ مل کر میت والوں کے مہمانوں وغیرہ کے کھانے کا انتظام کریں اور پھر بعد میں آپس میں برابر تقسیم کریں؟
بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی فوت ہونے والے کے مہمان زیادہ ہوتے ہیں اور خرچہ زیادہ ہو جاتا ہے، جب کہ اس نے دوسرے کے مرنے والے پر جو خرچہ کیا تھا وہ کم ہوا تھا، اگر کوئی جائز طریقہ ہو تو وہ بھی بتا دیں۔
سوال میں جو تفصیل لکھی گئی ہے اس تفصیل کی رو سے مذکورہ طریقے پر انتظامات کرنا شرعاً جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ کھانے کے انتظام کی رقم تمام لوگوں سے برابر سرابر لی جاتی ہے، حالاں کہ بعض لوگ اچھی حیثیت والے ہوتے ہیں اور بعض لوگ مالی اعتبار سے کمزور ہوتے ہیں اور وہ خاندانی یا معاشرتی رواداری کی خاطر یا لوگوں کی باتوں سے بچنے کے لیے مجبوراً یہ رقم جمع کراتے ہیں، یوں وہ رقم تو جمع کرادیتے ہیں، لیکن اس میں خوش دلی کا عنصر مفقود ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ مال استعمال کرنے والے کے لیے حلال طیب نہیں ہوتا، کیوں کہ حدیث شریف میں ہے کہ کسی مسلمان کا مال دوسرے مسلمان کے لیے صرف اس کی دلی خوشی اور رضامندی کی صورت میں ہی حلال ہے۔
ہاں اگر ایسے مواقع پر مخیر اور مالدار حضرات ازخود کھانے کی مد میں رقم جمع کروا دیں، کسی فردکو رقم دینے پر مجبور نہ کیا جائے تو اس طرح کھانے کے انتظام کی گنجائش ہے۔
مسند احمد میں ہے:
"عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: کنت آخذاً بزمام ناقة رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه و سلم في أوسط أیام التشریق أذود عنه الناس، فقال: یا أیها الناس! ألا لاتظلموا ، ألا لاتظلموا، ألا لاتظلموا، إنه لایحل مال امرء إلا بطیب نفس منه."
(مسند الکوفیین، حدیث عم أبي حرة الرقاشي، رقم الحدیث : 20714 ، ج : 5 ، ص : 72 ، ط : مؤسس قرطبة القاهرة)
مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کریں:
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144612100020
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن