بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کے گھر والوں کے لیے تین دن کے بعد دعوت کرنا


سوال

اگر کوئی فوت ہو جائے تو کیا اس کے گھر والوں کو تین دن بعد بھی کھانا کھلا سکتے ہیں؟

جواب

جس گھر میں فوتگی ہوجائے  تو اہلِ  میت  کےقریبی رشتہ داروں  اور ہمسایوں کے لیے مستحب ہے کہ اہل ِ میت کے لیے   دو وقت (ایک دن)کا کھانا تیار کرکے بھیجیں اور   اس غم کی گھڑی میں  ان کے  ساتھ بیٹھ کر  کھائیں  اوران  كو  بھی   کھلائیں، اور  ایک دن کے بعد  تین دن تک   کھانا بھیجنا بھی جائز ہے،  اور اگر  کسی معاشرے میں اس موقع پر اہل میت کی دعوت کرنے  کو رواج نہ بنا لیا ہو تو  تین دن کے بعد بھی   اہل ِمیت کو کھانا کھلایا جاسکتاہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله: وباتخاذ طعام لهم) قال في الفتح: ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم، لقوله صلى الله عليه وسلم: «اصنعوا لآل جعفر طعاماً فقد جاءهم ما يشغلهم». حسنه الترمذي وصححه الحاكم؛ ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل؛ لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون."

( كتاب الصلاة،باب صلاة الجنازة، مطلب في الثواب على المصيبة، ج:2،ص:240، ط:سعيد)

 "مرقاة المفاتيح"  میں ہے:

"قال الطيبي: دل على أنه يستحب للأقارب والجيران تهيئة طعام لأهل الميت اهـ. والمراد طعام يشبعهم يومهم وليلتهم، فإن الغالب أن الحزن الشاغل عن تناول الطعام لا يستمر أكثر من يوم، وقيل: يحمل لهم طعام إلى ثلاثة أيام مدة التعزية.

(كتاب الجنائز، باب البكاء على الميت، ج:3،ص:1241، ط:دار الفكر۔ بيروت)

کفایت المفتی میں ہے:

’’میت کے قریبی رشتہ دار گھر والوں کے لائق کھانا بھیج دیں تو یہ جائز اور مستحت ہے اور یہ صرف تین دن تک۔‘‘

(عنوان:’’میت کے گھر صرف دو وقت کا کھانا بھیجنا مستحب ہے‘‘، ج:۴، ص:۱۲۳،ط:دار الاشاعت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404100244

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں