بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کو تدفین سے پہلے منتقل کرنا


سوال

جب کسی شخص کا انتقال ہوجائے تو اسے اپنے آبائی علاقہ میں دفنا سکتے ہیں؟یا جہاں فوت ہوا ہے وہی دفنانا چاہیے۔؟کوئی نوکری کے سلسلہ میں باہر ملک گیا ہوا ہے۔

جواب

میت کو اسی علاقہ میں دفن کرنا مستحب ہے جہاں موت واقع ہوئی ہو،بغیر ضرورت اور عذر کے دوسرے شہر منتقل کرنا مکروہ ہے۔

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"مستحب اور افضل طریقہ یہی ہے کہ انسان کا جہاں انتقال ہوا وہیں اس کو دفن کیا جائے چاہے اس کا انتقال وطن میں ہوا ہو یا وطن سے باہر کسی اور جگہ ،دفن کرنے سے قبل منتقل کرنے میں فقہاء کا اختلاف ہے میل دو میل منتقل کرنا تو بالا تفاق جائز ہے ، دو میل سے زیادہ منتقل کرنے کو اکثر فقہاء نے مکروہ لکھا ہے ، اور صاحب نہر نے اسے بحوالہ عقد الفرائد الظاہر (ظاہری روایت) کہا ہے (شامی نے اسے نقل کیا ہے ج۱ صل ۸۴۰)بعض فقہاء مادون السفراور بعض مطلقاً جواز کے قائل ہیں مگر افضل منتقل نہ کرنا ہے بچند وجوہ۔

(۱)منتقل کرنے سے تجہیز و تکفین میں تاخیر ہوتی ہے ، حالانکہ تجہیز و تکفین میں عجلت مطلوب ہے۔

(۲)گاہے میت کے بدن میں تغیر پیدا ہوجاتا ہے ،کبھی تو لاش پھول پھوٹ جاتی ہے، بدبو پیدا ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے لوگ بھی دور دور رہتے ہیں اور میت کا جو احترام ہونا چاہئے وہ فوت ہوجاتا ہے ،اور اگر غسل دیئے بغیر منتقل کیا ہوتو پہنچنے تک کبھی میت نہ غسل کے قابل رہتی ہے نہ نماز جنازہ کے قابل، منتقل کرنا اپنے اختیار میں نہیں ہوتا، قانونی رکاوٹیں سامنے آتی ہیں اور تاخیر ہوجاتی ہے ۔

(۳)منتقل کرنے میں میت کی بے حرمتی کا بھی زیادہ امکان ہے ، ضرورت سے زیادہ میت کو حرکت ہوتی ہے اور بسا اوقات لاش کو برف پر رکھا جاتا ہے جو بجائے خود میت کے لئے تکلیف کا سبب ہے اور میت کو تکلیف پہنچانا ممنوع ہے ۔۔۔۔"الخ

(فتاویٰ رحیمیہ، ج7، ص 130، کتاب الجنائز ، ط: دار الاشاعت)

"الفقہ علی المذاھب الاربعۃ "میں ہے:

"الحنفية قالوا: يستحب أن ‌يدفن ‌الميت ‌في الجهة التي مات فيها، ولا بأس بنقله من بلدة إلى أخرى قبل الدفن عند أمن تغير رائحته، أما بعد الدفن فيحرم إخراجه ونقله، إلا إذا كانت الأرض التي دفن فيها مغصوبة، أو أخذت بعد دفنه بشفعة."

(مباحث الجنائز، ص:537، ج:1، ط:دارالفكر)

"رد المحتار" میں ہے:

"(قوله ولا بأس ‌بنقله ‌قبل ‌دفنه) قيل مطلقا، وقيل إلى ما دون مدة السفر، وقيده محمد بقدر ميل أو ميلين لأن مقابر البلد ربما بلغت هذه المسافة فيكره فيما زاد. قال في النهر عن عقد الفرائد: وهو الظاهر."

(كتاب الصلاة، فروع في الجنائز، ص:239، ج:2، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144403101412

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں