1۔ مردہ کو قبر میں رکھنے کا طریقہ کیا ہے؟
2:کیا مردہ کو قبر میں مکمل طور پر دائیں کروٹ لٹانا چاہیے ؟ اس کا کیا حکم ہے؟ اگر کوئی اس طرح نہ کرے تو وہ گنہگار ہو گا؟
مردہ کو قبر میں چت لٹا کر قبلہ کی طرف منہ کرنے کا کیا حکم ہے؟ ایک افضل اور دوسرا مفضول ہے ؟ اگر کسی جگہ پر اس دوسرے طریقے کا معمول ہو تو انتشار و تشویش سے بچنے کے لیے اسی طریقے پر اکتفا کرنا بہتر ہو گا یا پہلے طریقے پر دفن کرنے پر اصرار کرنا پڑے گا؟
3۔ قریب المرگ انسان کو قبلہ کی طرف کرنے کا کیا طریقہ ہے ؟ اور اس کا کیا حکم ہے؟
مفتی سعید احمد پالنپوریؒ نے ’’تحفۃالالمعی ‘‘میں تحریر فرمایا ہے کہ: ’’فائدہ: مردہ کو قبر میں دائیں کروٹ لٹانا چاہیے یا چت لٹا کر قبلہ کی طرف منہ کرنا چاہیے؟ فقہ کی کتابوں میں عام طور پر یہ لکھا ہے کہ میت کو دائیں کروٹ پر لٹانا چاہیے، مفتی رشید احمد لدھیانویؒ نے وصیت کی تھی کہ ان کو قبر میں کروٹ پر لٹایا جائے ، اور فقہ کی بعض عبارتوں سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مردہ کو چت لٹا کر اس کا منہ قبلہ کی طرف کرنا چاہیے ، دیوبند اور سہارن پور میں اسی پر عمل ہے ۔ میرے نزدیک دونوں طریقے جائز ہیں اور کروٹ پر لٹانا افضل ہے ، اور لحد کی فضیلت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں کروٹ دینے میں آسانی ہوتی ہے اور شق میں کروٹ پر لٹانے میں دشواری ہے ، دیوبند ، سہارن پور کی زمین نرم ہے ، اس لئے یہاں صندوقچی قبر بنائی جاتی ہے اور میت کو چت لٹا کر قبلہ رخ کر دیا جاتا ہے ، اور کروٹ دینے کے لئے میت کے پیچھے مٹی بھرنی ہو گی ، ورنہ وہ کھڑی نہیں رہے گی ۔‘‘(تحفۃ الالمعی ، ج 3 ، ص 456 ، ط :زمزم پبلشرز ) عن عبيد بن عمير، عن أبيه، أنه حدثه - وكانت، له صحبة - أن رجلا، سأله فقال يا رسول الله ما الكبائر فقال " هن تسع " . فذكر معناه زاد " وعقوق الوالدين المسلمين واستحلال البيت الحرام قبلتكم أحياء وأمواتا " . (سنن ابوداؤد ، حدیث 2875)
1: واضح رہے کہ میت کو قبر میں اتارنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ میت کق قبلہ کی جانب سے قبر میں داخل کیا جائےاور یہ طریقہ روایات سے ثابت ہے، چناں چہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ذوالبجادین رضی اللہ عنہ کو قبلہ کی جانب سے قبر میں داخل کیا، اسی طرح کی روایات کا تجزیہ کرتے ہوئے علامہ عبدا لحی لکھنویؒ نےلکھاہے کہ:’’جنازہ کو قبر کے سَرہانے قبلہ کی جانب رکھا جائے اورپھر قبلہ کی طرف سے اسے قبر میں داخل کیا جائے، کیوں کہ قبلہ قابلِ تعظیم ہے، لہذا اسی جانب سے میت کوداخل کرنا مستحب ہے‘‘۔
2: مردے کو قبر میں قبلہ رخ لٹانا واجب اور ضروری ہے، البتہ مردے کا صرف منہ قبلہ کی جانب کرنے پر اکتفا کیاجائے یا پھر منہ کے ساتھ اس کا سینہ بھی قبلہ کی جانب کیا جائے؟ اس بارے میں فقہاء نے یہ تفصیل بیان کی ہے کہ مردے کوقبر میں لٹانے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ مردہ کو قبر میں دائیں کروٹ پر لٹاکر اس کامکمل رخ قبلہ کی جانب کیا جائے اور یہی طریقہ افضل اور بہتر ہے، البتہ اگر مردہ کوقبر میں چِت لٹاکر اس کا منہ قبلہ کی جانب کردیا جائےتو بھی جائز ہے، لیکن خلافِ اولي ہے،چناں چہ ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبائر(بڑے بڑے گناہوں )کاذکر کرتے ہوئے فرمایاکہ:(کبائر میں سے ایک یہ بھی ہے کہ)تم اللہ کے گھر کی حرمت کو پامال کرو جو کہ تمہارا قبلہ ہے،زندوں کے لیے بھی(کہ تم زندگی میں اس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے ہو) اور تمہارے مردوں کے لیے بھی(کہ میت کارخ قبلہ کی جانب پھیرا جاتاہے)، الغرض افضل طریقہ یہی ہے کہ مردے کارخ قبلہ کی جانب کیاجائے ، اسی وجہ سے مفتی رشید صاحبؒ نے اس کی وصیت کی تھی،بہر حال اگرکہیں کسی عذر کی وجہ سے دوسرے طریقہ کو اختیار کیاجائےمثلاً کروٹ پر لٹانے میں دشواری ہو یا انتشار پیدا ہونے کاخدشہ ہو، تو شرعاً اس کی اجازت ہے اور اس طرح کرنے سے گناہ لازم نہ ہوگا۔
3: شریعت نے قریب المرگ انسان کو لٹانےسے متعلق یہ تعلیم دی ہے کہ اسے دائیں کروٹ پر اس طرح لٹایاجائے کہ اس کارخ قبلہ کی جانب ہو، جیسا کہ قبر میں لٹایا جاتاہے اور یہ طریقہ سنت ہے، لہذا افضل یہی ہے، البتہ اگر ایسے شخص کو اس کی آسانی کے لیےجس کیفیت میں لٹانے میں سہولت ہو اس طرح لٹایاجائے، تو بھی جائز ہے۔
سننِ أبی داؤد میں ہے:
"عن عبيد بن عمير، عن أبيه أنه حدثه، وكانت له صحبة أن رجلا سأله، فقال: يا رسول الله ما الكبائر؟ فقال: "هن تسع"، فذكر معناه زاد: «وعقوق الوالدين المسلمين، واستحلال البيت الحرام قبلتكم أحياء وأمواتا".
(كتاب الوصايا، باب ماجاء في التشديد في أكل مال اليتيم، ج:3، ص:115، ط: دار الكتب العلمية)
بذل المجھود میں ہے:
"(فقال: يا رسول الله، ما الكبائر؟ قال) النبي صلى الله عليه وسلم: (هن) أي: الكبائر (تسع، فذكر معناه) أي معنى حديث أبي هريرة المتقدم. (زاد) أي إبراهيم بن يعقوب أو عبيد: (وعقوق الوالدين المسلمين، واستحلال البيت الحرام) أي: هتك حرمته بالقتل فيه، والاصطياد وقطع الشجر ونحو ذلك (قبلتكم) وهو الذي يستقبل ويتوجه إليه (أحياء) أي: في زمان الحياة في الصلاة (وأمواتا) بتحويل وجه الميت إليها."
(كتاب الوصايا، باب ماجاء في التشديد في أكل مال اليتيم، ج:10، ص:28، ط: الدراسات الإسلامية الهند)
معجمِ طبرانی میں ہے:
"عن عمران بن أبي عطاء قال: شهدت محمد ابن الحنفية حين مات ابن عباس بالطائف، فكبر عليه أربعا، وأخذه من قبل القبلة حين أدخله القبر."
(باب العين، أحاديث عبد الله بن عباس، ج:10، ص:234، ط: مكتبة ابن تيمية القاهرة)
ترجمہ:حضرت عمران بن ابی عطاء فرمایاکہ : جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا طائف کے مقام میں انتقال ہوا، تو میں نے حضرت محمد بن حنفیہ کو دیکھا کہ انہوں نے تکبیر چار تکبیرات کہیں(نمازِ جنازہ پڑھی) اور حضرت ابن عباس کو جب قبر میں داخل کیا، تو قبلہ کی جانب سے داخل کیا۔
حلیہ ابن ابی نعیم میں ہے:
"عن عبد الله قال: والله لكأني أرى رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة تبوك وهو في قبر عبد الله ذي البجادين وأبو بكر وعمر رضى تعالى عنهم يقول: أدليا مني أخاكما، وأخذه من قبل القبلة حتى أسنده فى لحده. ثم خرج النبي صلى الله عليه وسلم وولاهما العمل، فلما فرغ من دفنه استقبل القبلة رافعا يديه يقول: "اللهم إني أمسيت عنه راضيا فارض عنه".
(مقدمة، ج:1، ص:122، ط: مطبعة السعادة)
رفع الستر میں ہے:
"وهو أن توضع الجنازة على شفير القبر من جانب القبلة ويؤخذ الميت منه ؛ لأن جانب القبلة معظم ، فيستحب الإدخال منه، وإليه ذهب علي رضي الله عنه، وابنه محمد بن الحنفية،ويشهد لذلك كثير من الأخبار والآثار".
(ص:19، ط: مركز أنوار العلماء للدراسات)
فتاوی شامی میں ہے :
"(يوجه المحتضر) وعلامته استرخاء قدميه، واعوجاج منخره وانخساف صدغيه (القبلة) على يمينه هو السنة (وجاز الاستلقاء) على ظهره (وقدماه إليها) وهو المعتاد في زماننا (و) لكن (يرفع رأسه قليلا) ليتوجه للقبلة (وقيل يوضع كما تيسر على الأصح) صححه في المبتغى (وإن شق عليه ترك على حاله)".(و) يستحب أن (يدخل من قبل القبلة) بأن يوضع من جهتها ثم يحمل فيلحد (و) أن (يقول واضعه: بسم الله، وبالله، وعلى ملة رسول الله صلى الله عليه وسلم ويوجه إليها)وجوبا، وينبغي كونه على شقه الأيمن ولا ينبش ليوجه إليها".
وفي الرد:(قوله: وجوبا) أخذه من قول الهداية: بذلك أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم، لكن لم يجده المخرجون. وفي الفتح أنه غريب، واستؤنس له بحديث أبي داود والنسائي "أن رجلا قال: يا رسول الله ما الكبائر؟ قال: هي تسع، فذكر منها استحلال البيت الحرام قبلتكم أحياء وأمواتا" . قلت: ووجهه أن ظاهره التسوية بين الحياة والموت في وجوب استقباله، لكن صرح في التحفة بأنه سنة كما يأتي عقبه (قوله: ولا ينبش ليوجه إليها) أي لو دفن مستدبرا لها وأهالوا التراب لا ينبش لأن التوجه إلى القبلة سنة والنبش حرام، بخلاف ما إذا كان بعد إقامة اللبن قبل إهالة التراب فإنه يزال ويوجه إلى القبلة عن يمينه حلية عن التحفة، ولو بقي فيه متاع لإنسان فلا بأس بالنبش ظهيرية".
(كتاب الصلاة، باب الجنائز، ج:2، ص:236، ط:سعيد)
البنایہ میں ہے:
"وذكر أبوحفص بن شاهين في كتاب الجنائز له بابا في توجيه المحتضر، ولم يذكر فيه غير أثر عن إبراهيم النخعي قال: يستقبل بالميت القبلة. وعن عطاء بن أبي رباح نحوه بزيادة على شقه الأيمن، ما علمت أحدا تركه في سنته م: (اعتبارا بحال الوضع في القبر) ش: يعني يعتبر توجيه من أشرف على الموت إلى القبلة على شقه الأيمن اعتبارا بحال وضع الميت في قبره فإنه في قبره يوجه إلى القبلة على شقه الأيمن.
وقال الأترازي لأنه السنة، ولم يبين السنة كيف هي! وقال السغناقي الاضطجاع على ستة أنواع: اضطجاع في حالة المرض، فإنه يضطجع على شقه الأيمن عرضا للقبلة. واضطجاع في حالة صلاة المريض، وقد ذكر اضطجاعه في حالة النزع، فإنه يوضع كما يوضع في حالة المرض. واضطجاع في حالة الغسل بعدما قضى نحبه فلا رواية فيه عن أصحابنا كيف يوضع على التخت، إلا أن العرف فيه يضطجع مستلقيا على قفاه طولا نحو القبلة كما في حالة الصلاة. واضطجاع في حالة الصلاة عليه، فإنه يضطجع معترضا للقبلة على قفاه. واضطجاع في حالة الوضع في اللحد، فإنه يوضع على شقه الأيمن، كما في حالة المرض ".
(كتاب الصلاة، باب الجنائز، ما يفعل بالمحتضر، ج:3، ص:174، دار الكتب العلمية)
کفایت المفتی میں ہے:
"چت لٹانا اور قبلہ کی طرف منہ کرنابھی جائز ہے اور کروٹ سے لٹانااور پشت کی طرف مٹی کے ڈھیلے کی ٹیک لگانابھی جائزہےاور یہ صورت چت لٹانے سے بہتر اور أفضل ہے،لیکن خلاف سنت ہے۔"
(کتاب الجنائز، ج: 4، ص:48، ط:دار الاشاعۃ)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
"سوال: میت کوقبر میں رکھنے کاطریقہ کیاہے؟ جواب:شمال کی طرف سر، جنوب کی طرف پیر، داہنی کروٹ قبلہ کی طرف چہرہ ہو۔"
"قبر میں میت کوکچھ داہنی کروٹ دے دی جائےکہ جس سے چہرہ قبلہ کی طرف ہوجائے،خواہ مٹی کاسہارہ دے کرخواہ قبر ہی کی دیوار سے سہارہ دے کر اور یہی صورت افضل اور بہتر ہے۔ "
"میت کوقبلہ رخ کرکے کروٹ دی جائے، صرف چہرہ قبلہ کی طرف پھرانے پر کفایت نہ کی جائے ۔"
(کتاب الصلاۃ، باب الجنائز، ج:9، ص:61، ط:دار الافتاء جامعہ فاروقیہ)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144508102526
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن