بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کومدرسہ کے لیے موقوفہ زمین میں دفن کردینا


سوال

ایک شخص نے اپنے  میت کو مدرسے کے لیے موقوفہ زمین میں دفن کردیا ہے، اب کیا کیاجائے؟

جواب

مدرسہ بنانے کے لیے موقوفہ زمین میں  میت کو دفن کرنا شرعًا جائز نہیں ہے،  اگر کسی نے مدرسہ کی وقف زمین میں میت کو دفن کیا  تو اب  اس  میت کو وہاں سے نکال کر کسی   قبرستان  وغیرہ  میں منتقل کردیا جائے یا قبر کی زمین کو برابر کردیا جائے؛ تاکہ واقف کا مقصد فوت نہ ہو اور اوقاف  کو غیر اوقاف کے ساتھ مشغول کرنا لازم نہ آئے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 199):

"حفر قبرًا فدفن فيه آخر ميتًا فهو على ثلاثة أوجه: أن الأرض للحافر فله نبشه وله تسويته، وإن مباحةً فله قيمة حفره، وإن وقفًا فكذلك.

(قوله: فله نبشه) أي نبشه لإخراج الميت (قوله: وله تسويته) أي بالأرض والزراعة فوقه، أشباه (قوله: وإن وقفًا فكذلك) أي فله قيمة حفره وهذا ذكره في الأشباه بحثا فقال: وينبغي أن يكون الوقف من قبيل المباح، فيضمن قيمة الحفر ويحمل سكوته عن الضمان في صورة الوقف عليه اهـ أي على الضمان في المباح، وفي حاشية أبي السعود عن حاشية المقدسي، وهذا لو وقفت للدفن فلو على مسجد للزرع والغلة  فكالمملوكة تأمل اهـ."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206201325

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں