بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کو کفن دینے کا طریقہ


سوال

میت کو کفن کیسے دیا جائے؟

جواب

مرد کو تین کپڑوں میں کفنانا سنت ہے؛ کرتا، ازار، چادر۔ اور عورت کو پانچ کپڑوں میں کفنانا سنت ہے؛ کرتا، ازار، سربند، سینہ بند، چادر۔

کرتا:        آگے پیچھے سے میت کے گلے سے لے کر پاؤں تک ہونا چاہیے،  لیکن نہ اس میں کلی ہوں نہ آستین۔ تخمیناً لمبائی  (یعنی اگلی اور پچھلی دونوں جانب ملاکر) پانچ گز سے  ساڑھے پانچ گز اور عرض ایک گز۔

ازار:        سر سے لے کر پیر تک ہو۔ تخمیناً لمبائی ڈھائی گز اور عرض سوا گز سے  ڈیڑھ گز۔

چادر:        اسے  لفافہ بھی کہتے ہیں، ازار سے ایک  ہاتھ بڑی ہو۔ تخمیناً لمبائی پونے تین گز اور عرض سوا گز سے ڈیڑھ گز۔

سربند:      لمبائی ڈیڑھ گز اور عرض ایک گز سے تھوڑا کم، تقریباً ایک گز۔ اسے عورت کے سر اور بالوں پر ڈالتے ہیں، لپیٹتے نہیں۔

سینہ بند:    زیرِ بغل سے لے کر رانوں تک چوڑا اور اتنا لمبا ہو کہ بند ہوجائے۔ اسے عورت کے بغل سے رانوں تک باندھا جاتا ہے۔ لمبائی دو گز اور عرض سوا گز۔

مرد کے کفنِ مسنون میں تخمیناً  سوا گز سے ڈیڑھ گز عرض کا کپڑا دس گز  صرف ہوتا ہے۔  اور  عورت کے لیے مع چادر گہوارہ  ساڑھے اکیس گز۔ اور غسل کے تہہ بند اور دستانے اس سے جدا ہیں۔ اور بچہ کا کفن اس کے قد کے مناسبِ حال لینا چاہیے۔

کفنانے کا طریقہ:

  • کفن کو تین دفعہ یا پانچ دفعہ یا سات دفعہ لوبان وغیرہ کی دھونی دے دی جائے۔
  • پہلے چادر  بچھائی جائے، پھر اِزار  اور  اس کے اوپر کرتا۔ کرتے کو درمیان سے چاک کرکے اس میں گلے کی جگہ بنا لی جائے۔ کرتے کا نچلا نصف حصہ ازار پر بچھایا جائے اور اوپر کا باقی حصہ سرہانے کی طرف رکھ دیا جائے۔ اگر میت عورت ہے تو چادر بچھا کر اس پر سینہ بند اور پھر ازار اور پھر کرتا بچھایا جائے۔
  • پھر غسل دیے ہوئے مردے کو تختہ سے آہستگی سے اُٹھا کر کفن پر لٹا دیا جائے، اور کرتے کا جو نصف حصہ سرہانے کی طرف تھا اس کو سر کی طرف اُلٹ دیا جائے کہ کرتے کا سوراخ گلے میں آجائے، اور  پیروں کی طرف بڑھا دیا جائے۔
  • کرتا پہنانے  کے بعد جو تہبند یا چادر ستر کے واسطہ میت کے بدن پر ڈالی گئی تھی اسے نیچے سے نکال دیا جائے۔
  • اگر میت عورت ہے تو اس کے سر کے بالوں کو  دو حصے  کرکے کرتے کے اوپر سینے پر ڈال دیے جائیں؛ ایک حصہ داہنی طرف اور ایک بائیں طرف۔ اس کے بعد سربند سر پر اور بالوں پر ڈالا جائے، اس کو  نہ باندھا جائے نہ لپیٹا جائے۔
  • پھر سر اور  ڈاڑھی پر عطر وغیرہ کوئی  خوشبو لگا دی جائے۔ (یاد رہے مرد کو زعفران نہیں لگانی چاہیے، اور عورتوں کو تیز پھیلنے والی خوشبو نہیں لگانی چاہیے۔)
  • پھر سجدے کے موقعوں؛  پیشانی، ناک، دونوں ہتھیلی، دونوں گھٹنے اور دونوں پنجے، پر کافور مل دیا جائے۔
  • پھر ازار کا بایاں پلہ (کنارہ) میت کے اوپر لپیٹ دیا جائے، پھر دایاں پلہ لپیٹا جائے، یعنی بایاں پلہ نیچے رہے اور دایاں اوپر۔ اگر میت عورت ہے تو ازار لپیٹنے کے بعد سینہ بند کو سینہ کے اوپر بغلوں سے نکال کر گھٹنوں تک دائیں بائیں سے باندھ دیا جائے۔
  • پھر چادر اسی طرح لپیٹ دی جائے؛ پہلے بائیں طرف، پھر داہنی طرف۔ یعنی بایاں پلہ نیچے رہے اور دایاں اوپر۔
  • پھر کسی دھجی سے پیر اور سر کی طرف کفن کو باندھ دیا جائے اور ایک بند کمر کے پاس بھی باندھ دیا جائے، تاکہ  راستے  میں کفن  نہ کھل جائے۔ قبر میں مردہ کو  قبلہ رُخ لٹانے کے بعد کفن کی یہ گرہیں کھول دی جائیں گی۔

چھوٹے  بڑے تمام عمر کے لوگوں کو کفن دینے کا یہی طریقہ ہے جو اوپر مذکور ہوا، البتہ جو بچہ ماں کے پیٹ سے مرا ہوا پیدا ہو، یعنی پیدا ہوتے وقت زندگی کی کوئی علامت نہیں پائی گئی تو ایسے بچے کو  قاعدے کے موافق کفن نہ دیا جائے، بلکہ کسی ایک کپڑے میں لپیٹ کر دفن کردیا جائے۔

اگر کسی مرد کو فقط  دو کپڑوں؛  ازار  اور  چادر، اور  عورت کو فقط تین کپڑوں؛ ازار، چادر اور سربند، میں کفن دیا جائے تو یہ بھی درست ہے اور اتنا کفن بھی کافی ہے۔ کسی مجبوری اور لاچاری کے بغیر اس بھی کم کپڑوں میں کفن دینا مکروہ ہے۔ لیکن اگر کوئی مجبوری اور لاچاری ہو تو مکروہ بھی نہیں۔

کسی انسان کی قبر کھل جائے یا اور کسی وجہ سے اس کی لاش قبر سے باہر نکل آئے اور اس پر کفن نہ ہو تو اس کو بھی مسنون کفن دینا چاہیے، بشرطیکہ وہ لاش پھٹی نہ ہو۔ اور اگر پھٹ گئی ہو تو صرف کسی کپڑے میں لپیٹ دینا کافی ہے، مسنون کفن کی حاجت نہیں۔

کفن سے متعلقہ اہم تنبیہات:

  • میت کو غسل دینا، کفن دینا، اس پر نمازِ جنازہ پڑھنا اور دفن کرنا فرضِ کفایہ ہے۔
  • مرد و عورت کے لیے کفن کا کپڑا سفید ہونا مسنون ہے۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: "تم لوگ سفید کپڑے پہنا کرو، وہ تمہارے لیے اچھے کپڑے ہیں، اور ان ہی میں اپنے مُردوں کو کفنایا کرو۔" (سنن ابی داؤد، ترمذی، سنن ابن ماجہ)۔
  • مرد کے لیے خالص ریشمی یا زعفران یا عصفر سے رنگے ہوئے کپڑے کا کفن مکروہ ہے، عورت کے لیے جائز ہے۔
  • کفن کے لیے نیا کپڑا خریدنا ضروری نہیں ہے، اگر گھر میں سفید کپڑا موجود ہے اور پاک صاف ہے تو اسے کفن بنانے میں حرج نہیں۔
  • کفن کا کپڑا اسی حیثیت کا ہونا چاہیے  جیسا مردہ اکثر زندگی میں استعمال کرتا تھا، تکلفات فضول ہیں۔
  • اپنے لیے کفن تیار رکھنا مکروہ نہیں، البتہ قبر کا تیار رکھنا مکروہ ہے۔
  • تبرک کے طور پر آبِ زمزم میں تر کیا ہوا کفن دینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں، بلکہ باعثِ برکت ہے۔
  • کفن میں یا قبر کے اندر عہدنامہ یا اپنے پیر کا شجرہ یا اور کوئی دعا رکھنا درست نہیں۔ البتہ کعبہ شریف کا غلاف تبرکاً رکھ دینا درست ہے۔
  • اگر کعبہ شریف کے غلاف کے اوپر کلمہ یا قرآنی آیات لکھی ہوں تو وہ کفن یا قبر میں رکھنا درست نہیں ہے۔
  • اسی طرح کفن  پر یا سینہ پر یا پیشانی پر کافور سے یا روشنائی سے کلمہ وغیرہ، قرآنی آیات یا کوئی اور دعا لکھنا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ میت کے پھٹنے سے بے حرمتی ہوگی۔
  • بعض لوگ کفن پر بھی عطر لگاتے ہیں، اور عطر کی پھریری میت کے کان میں رکھ دیتے ہیں، یہ سب جہالت ہے۔ جتنا شریعت میں آیا ہے اس سے زائد نہیں کرنا چاہیے۔
  • مرد کے جنازہ پر چادر ڈالنا ضروری نہیں اور نہ ہی یہ چادر کفن میں داخل ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی چادر ڈالنا چاہے تو ڈال سکتا ہے۔
  • عورت کے جنازہ پر چادر ڈالنا پردے کے لیے ضروری ہے، مگر یہ چادر بھی کفن میں داخل نہیں ہے۔ کوئی سی بھی چادر ڈالی جاسکتی ہے۔
  • جنازے پر قرآنی آیات، کلمہ  اور دعاؤں والی چادر ڈالنا جائز نہیں ہے، اس سے بے حرمتی ہوتی ہے۔
  • میت کے غسل اور کفن وغیرہ سے جو سامان اور کپڑا بچ جائے تو اگر وہ میت کے ترکہ سے لیا گیا تھا تو اسے ترکہ میں شامل کرنا چاہیے، یا جس نے اپنے پیسوں سے خریدا تھا اسے واپس کرنا چاہیے، یوں  ہی پھینک دینا یا ضائع کرنا یا کسی دوسرے کو دے دینا جائز نہیں ہے۔
  • میت کو کفنانے کے وقت مرد ہو یا عورت پائجامہ اور ٹوپی پہنانا جائز نہیں ہے۔
  • اسی طرح عمامہ دینا بھی مکروہ ہے،  جیسا کہ بعض جگہ علماء اور سرداروں وغیرہ کی میت کو کفن کے تین کپڑوں کے علاوہ ایک عدد عمامہ بھی دیتے ہیں۔
  • میت کو کفن پہنانے کے بعد امام مسجد کا لکھا ہوا خط میت کے ہاتھوں میں رکھنا بے اصل اور لغو ہے۔

(ماخوذ از: بہشتی زیور، ص:130-132، ط: دارالاشاعت / و احکام میت، ص:44-56، 206، 208، ط: ادارۃ المعارف)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200360

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں