بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کو غسل دینے کا مسنوں طریقہ


سوال

میت کو سنت کے مطابق غسل دینے کا طریقہ تفصیلا سمجھا دیں، مرد اور عورت دونوں کا۔

جواب

میت کو غسل دینے کا مسنون طریقہ یہ ہے:

غسل دینے کے لیے میت کو کسی اونچی چیز مثلا: نہلانے کے تخت پر رکھا جاۓ،اور اس پر میت کو قبلہ رخ یا جیسے آسانی ہو لٹایا جاۓ۔

پھر غسل دیتے  وقت تین بار یا پانچ بار  یا سات بار دھونی دی جاۓ،یعنی دھونی کے برتن یا لوبان کو  تخت کے چاروں طرف  تین بار یا پانچ بار یا سات بار پھیرا جاۓ۔

پھر میت کے ستر پر ایک پاک کپڑا ڈال کر  باقی سارے کپڑے اوپر سے نیچے اتار لیے جائیں۔

میت کے پاس غسل دیتے وقت  غسل دینے والا یا اس کے معاون کے علاوہ کوئی  اور نہ ہو۔

پھر غسل دینے والا  اپنے ہاتھ پر کپڑا لپیٹ کر یا دستانہ پہن کراسے پانی سے تر کرکے میت کی اگلی پچھلی شرم گاہوں کو کپڑے کے اندر سے دھوۓ یعنی استنجا کرواۓ۔

پھر میت کو وضو کرواۓ،اور وضو کرواتے وقت میت کے چہرے کو دھوۓ لیکن ہاتھ نہیں دھلاۓ۔(زندہ اور میت میں یہی فرق ہے)

میت  کو غسل دینے میں  کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا نہیں ہوتا،بلکہ اس کی جگہ پر  پاک کپڑے یا گیلی روۓ سے  میت کے دانتوں اور نتھنوں کو صاف کرنا ہوتا ہے۔

پھر  میت کے سر اور داڑھی کے بالوں کو  کسی میل کاٹنے والی یعنی  ختم کرنے والی چیز مثلا: صابن وغیرہ سے دھوۓ،اور اگر میت کے  سر پر بال نہ ہو ں تو  سر کو صابن  وغیرہ سے نہ دھوۓ۔

پھر میت کو بائیں کروٹ پر لٹایا جاۓ تاکہ پہلے دائیں پہلو کو دھویا جاۓ، پھر دائیں پہلو پر بیری کے پتے ڈال کر گرم کئے گئے یا صابن ملاۓ  گئے پانی کو سر سے لے کر پاؤں تک تین بار بہاۓ،یہاں تک کہ نچلی طرف پانی بہہ جاۓ،اور پیٹھ دھونے کے لیے چہرے کے بل اوندھا نہ لٹایا جاۓ،بلکہ پہلو کی جانب سے اس طرح پانی بہایا جاۓ کہ پانی تمام جگہ پہنچ جاۓ، یہ پہلا غسل ہوا، اگر اس طرح تمام بدن پر پانی بہہ جاۓ تو فرض کفایہ ادا ہوگیا۔

پھر میت کو دوسری بار دائیں کروٹ پر لٹایا جاۓ اور پھر بائیں پہلو پر تین بار اسی طرح بیری کے پتے سے گرم کیا ہوا یا صابن ملایا ہوا پانی ڈالا جاۓ،جیسا کہ پہلی مرتبہ ڈالا تھا۔

پھر اس کے بعد نہلانے والے کو چاہئیے کہ میت کو بٹھاۓ  اور اس  کو اپنے سہارے پر رکھ کر  آہستہ آہستہ اس کے پیٹ پر ہاتھ پھیرے ،اس طرح کرنے سے اگر کچھ خارج ہو تو  اس کو دھو ڈالے۔یہ دوسرا غسل ہے۔

اس کے بعد میت کو بائیں کروٹ پر لٹاۓ ،اور سابقہ طریقے کے مطابق  کافور ملایا ہوا  پانی بہا دے،یہ تیسرا غسل ہوگیا۔

ابتدائی دو غسل گرم پانی سے اور میل کاٹنے یعنی ختم کرنے والی چیز ،جیسے بیری کے پتے اور صابن وغیرہ کے ساتھ دیے جائیں۔تیسرے غسل میں کافور ملایا ہوا پانی استعمال کیا جاۓ۔

اس کے بعد میت کے بدن کو کپڑے وغیرہ سے پونچھ کر خشک کرلیا جاۓ،اور اس پر  خوشبو مل دی جاۓ۔

میت کے غسل کے صحیح ہونے کے لیے نیت ضروری نہیں ہے۔

غسل دینے کے فرض کفایہ ادا ہونے کے لیے  بھی نیت شرط نہیں ہے، البتہ ثواب حاصل کرنے کے لیے نیت شرط ہے۔

ـواضح رہے  کہ میت مرد ہو یا عورت  دونوں کو غسل دینے کا مسنون  طریقہ یکساں ہے دونوں کے مسنون غسل میں  کوئی فرق نہیں ہے البتہ مردوں کو مرد غسل دیں گے اور عورتوں کو عورتیں غسل دیں گی۔

(ماخوذ:میت کے مسائل کا انسائکلوپیڈیا،ص:46:48،ج:2،ط:بیت العمار کراچی)

الفقه على المذاهب الأربعة میں ہے:

"الحنفية قالوا: ‌يوضع ‌الميت ‌على شيء مرتفع ساعة الغسل - كخشبة الغسل - ثم يبخر حال غسله ثلاثاً أو خمساً أو سبعاً بأن تدار المجمرة حول الخشبة ثلاث مرات أو خمساً أو سبعاً، كما تقدم ثم يُجرد من ثيابه ما عدا ساتر العورة، ويندب أن لا يكون معه أحد سوى الغاسل ومن يعينه، ثم يلف الغاسل على يده خرقة، يأخذ بها الماء ويغسل قُبُله ودبره - الاستنجاء -، ثم يوضأ، ويبدأ في وضوئه وجهه، لأن البدء بغسل اليدين إنما هو للأحياء الذين يغسلون أنفسهم فيحتاجون إلى تنظيف أيديهم، أما اللميت فإنه يغسله غيره، ولأن المضمضة والاستنشاق لا يفعلان في غسل الميت، ويقوم مقامهماتنظيف الأسنان والمنخرين بخرقة، كما تقدم ثم يغسل رأسه ولحيته بمنظف كالصابون ونحوه إن كان عليهما شعر؛ فإن لم يكن عليهما شعر لا يغسلان كذلك؛ ثم يضجع الميت على يساره ليبدأ بغسل يمينه، فيصب الماء على شقه الأيمن من رأسه إلى رجليه ثلاث مرات حتى يعم الماء الجانب الأسفل، ولا يجوز كب الميت على وجهه لغسل ظهره، بل يحرك من جانبه حتى يعمه الماء؛ وهذه هي الغسلة غسلتان أخريان؛ وذلك بأن يضجع ثانياً على يمينه ثم يصب الماء على شقه الأيسر ثلاثاً بالكيفية المتقدمة؛ ثم يجلسه الغاسل ويسنده إليه ويمسح بطنه برفق ويغتسل ما يخرج منه، وهذه هي الغسلة الثانية، ثم يضجع بعد ذلك على يساره ويصب الماء على يمينه بالكيفية المتقدمة، وهذه هي الغسلة الثالثة، وتكون الغسلتان الأوليان بماء ساخن مصحوب بمنظف، كورق النبق والصابون، أما الغسلة الثالثة فتكون بماء مصحوب بكافور؛ ثم بعد ذلك يجفف الميت ويوضع عليه الطيب، كما تقدم.هذا؛ ولا يشترط لصحة الغسل نية، وكذلك لا تشترط النية لإسقاط فرض الكفاية على التحقيق، إنما تشترط النية لتحصيل الثواب على القيام بفرض الكفاية."

 (كتاب الصلاة،مباحث الجنائز،كيفية غسل الميت463:464/1،ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144409101191

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں