مردے کو غسل کیوں دیا جاتا ہے؟ اور بوقتِ انتقال میت نے جو کپڑے پہنے ہوئے ہوتے ہیں، کیا وہ ناپاک ہیں؟
میت کو غسل دینے کی اصل یہ ہے کہ فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کو غسل دیا تھا، اور آپ کی اولاد سے کہا تھا کہ: تمہارے مُردوں کے لیے یہی طریقہ ہے، نیز میت کو غسل دینے کا مقصد اس کی نظافت اور عزت واحترام کا اظہار ہے۔ چناں چہ اولادِ آدم کے لیے یہی طریقہ ٹھہرا کہ انہیں (شہادت کے علاوہ) موت کی صورت میں غسل دیا جائے، اور رسول اللہ ﷺ نے بھی ہمیں اس کا حکم دیا ہے، لہٰذا مردے کو غسل دینا زندوں پر فرضِ کفایہ ہے۔
باقی موت کے وقت پہنے ہوئے کپڑوں پر اگر نجاست نہ ہو تو وہ ناپاک نہیں ہوں گے، لیکن چوں کہ موت سے اعضاء ڈھیلے ہوجاتے ہیں جس سے عمومًا نجاست جسم سے نکلتی ہے، اس لیے میت کے کپڑوں کو پاک کرکے استعمال کرنا چاہیے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 200):
"و في الاختيار: الأصل فيه تغسيل الملائكة لآدم عليه السلام، و قالوا لولده: هذه سنة موتاكم.
(قوله: و في الاختيار إلخ) استفيد منه أنه شريعة قديمة، وأنه يسقط وإن لم يكن الغاسل مكلفًا؛ ولذا لم يعد أولاد أبينا آدم عليه السلام غسله ط."
وفیه أیضًا (2/ 230):
(قوله: ويغسل المسلم) أي جوازًا لأن من شروط وجوب الغسل كون الميت مسلمًا. قال في البدائع: حتى لايجب غسل الكافر لأن الغسل وجب كرامةً وتعظيمًا للميت."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144111200550
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن