بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کو بوسہ دینا


سوال

کیا میت کو بوسہ دینا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اولاد کے لیے اپنے مرحوم ماں باپ کو بوسہ دینا اور چومنا جائز ہے، اس میں کچھ حرج نہیں ہے، کیوں کہ ماں اپنے بچوں کے لیے محرمہ ہے،اوربچوں کو اپنی ماں کو ہاتھ لگانااورچومنا منع نہیں ہے،  اسی طرح باپ اپنی بچیوں کے محرم ہیں اور بچیوں کو اپنے باپ کو ہاتھ لگانا منع نہیں ہے ۔اسی طرح ماں باپ کو اپنی اولاد کے ساتھ یہ معاملہ کرنا درست ہے ۔ اسی طرح مرد کے لیے مرد میت کو اور عورت کے لیے عورت میت کو بوسہ دینا جائز ہے۔   البتہ شوہر کے لیے اپنی مردہ بیوی کو ہاتھ لگانا اور بوسہ دینا جائز نہیں ہے۔  والدین اور اولاد کے علاوہ جن محرم رشتوں میں بوسہ دینے کی صورت میں شہوت کا امکان ہو، وہاں بوسہ دینا درست نہیں ہوگا، جہاں شہوت نہ ہو تو اجازت ہوگی، مثلًا: پھوپھی کے لیے مرحوم بھتیجے یا خالہ کے لیے مرحوم بھانجے وغیرہ کا بوسہ لینا۔

میت کو غسل دینے کے بعد محبت اور عقیدت میں میت کو بوسہ دینا جائز ہے، جیسا کہ نبی کریم ﷺنے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا بوسہ لیا ، اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺکی وفات پر آپ ﷺ کی پیشانی کا بوسہ لیا ۔ 

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح  میں ہے:

"ولا بأس بتقبيل الميت" للمحبة والتبرك توديعا خالصة عن محظور .

"ولا بأس بتقبيل الميت" لما روي البخاري عن عائشة رضي الله عنها قالت أقبل أبو بكر على فرسه من مسكنه بالسنح حتى نزل فدخل المسجد فلم يكلم الناس حتى دخل على عائشة فتيمم النبي صلى الله عليه وسلم وهو مسجى ببرد حبرة فكشف عن وجهه ثم أكب عليه فقبله ثم بكى ولم يفعل ذلك إلا قدوة به صلى الله عليه وسلم لما روى أبو داود والترمذي وابن ماجه والحاكم مصححا عن عائشة رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل على عثمان بن مظعون وهو ميت فأكب عليه وقبله ثم بكى حتى رأيت الدموع تسيل على وجنتيه وفي التمهيد لما توفي عثمان كشف النبي صلى الله عليه وسلم الثوب عن وجهه وبكى بكاء طويلا وقبل بين عينيه فلما رفع على السرير قال طوبى لك يا عثمان لم تلبسك الدنيا ولم تلبسها اهـ قوله: "والتبرك" الواو بمعنى أو فإن تقبيله صلى الله عليه وسلم عثمان للمحبة وتقبيل أبي بكر الرسول الأكرم صلى الله عليه وسلم لهما معا قوله: "خالصة عن محظور" هذا قيد في الجواز أما إذا كانت لشهوة فحرام ولو زوجة فيما يظهر لقولهم أن النكاح انقطع بموتها لذهاب محله."(1 / 573)

عمدۃ القاری میں  ہے:

"ولهذا أنكر الخطابي ومن تبعه وضع الجريد اليابس وكذلك ما يفعله أكثر الناس من وضع ما فيه رطوبة من الرياحين والبقول ونحوهما على القبور ليس بشيء."

(عمدة القاري شرح صحيح البخاري)(5 / 4)

 شامی میں ہے:

«ویمنع زوجها من غسلها ومسها لا من النظر إلیها علی الأصح، وهی لا تمنع من ذلك أی من تغسیل زوجها دخل بها أو لا»․

(شامی، کتاب الجنائز ،  ۲/۱۹۸ ، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200284

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں