بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کی طرف سے زکوة ادا کرنے کا شرعی حکم


سوال

ایک عورت اپنے زیورات کی زکوة ہر سا ل ادا کررہی تھی لیکن گھر کی مجبوری کی وجہ سے وہ مسلسل دوسال زکوة نہ دےسکی اور اسی دوران اسکا انتقال ہو گیا تو کیا اب اسکے شوہر کے ذمہ وہ زکوة لازم ہوگی یا نہیں اگر ہو گی تو ادا کیسے کریں گے؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر مرحومہ کے ذمہ گزشتہ دوسالوں کی زکوۃ کی ادائیگی لازم تھی اور انہوں نے ادا  نہیں کی تھی،  تو مرحومہ کی طرف سے زکوۃ ادا  کرنے کا حکم یہ ہے کہ اگر انہوں نے اپنے مال سے زکوۃ کی ادائیگی کی وصیت کی ہے تو ترکہ سے قرضوں کی ادائیگی کے بعد  باقی  ماندہ  مال  کے ایک تہائی مال سے زکوۃ  ادا  کی جائے گی اور اگر ورثاء بالغ ہیں تو  اس سے زیادہ  بھی اپنی مرضی سے بطورِ تبرع  دے  سکتے ہیں، تاہم اگر مرحومہ نے زکوۃ  کی ادائیگی کی  وصیت ہی نہیں کی ہے تو  ورثاء کے ذمہ اس کی زکوۃ ادا  کرنا ضروری نہیں  ہے، اس صورت میں بھی اگر ورثاء بالغ ہوں اور  رضامندی سے  بطورِ تبرع  دے دیں تو مرحومہ پر احسان ہوگا۔اوردوسال کی زکوۃ اس طرح اداکی جائے گی کہ  زیورات  کی موجودہ قیمت لگا کر  اس کا چالیسواں حصہ نکالا جائے، اگلے سال زکوۃ ادا کرنے کے لیے اس سونے کی قیمت میں سے پہلے سال کی زکوۃ منہا کرکے چالیسواں حصہ نکالا جائے اس طرح دونوں سالوں کی زکوۃ ادا کی جائے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"وأما دين الله تعالى فإن أوصى به وجب تنفيذه من ثلث الباقي وإلا لا۔

وفی الرد: قوله وأما دين الله تعالى إلخ) محترز قوله من جهة العباد وذلك كالزكاة والكفارات ونحوها قال الزيلعي فإنها تسقط بالموت فلا يلزم الورثة أداؤها إلا إذا أوصى بها؛ أو تبرعوا بها هم من عندهم، لأن الركن في العبادات نية المكلف وفعله، وقد فات بموته فلا يتصور بقاء الواجب اهـ"

(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الفرائض ، 6/ 760، ط:سعید)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"أنه لو مات من عليه الزكاة لاتؤخذ من تركته لفقد شرط صحتها، وهو النية إلا إذا أوصى بها فتعتبر من الثلث كسائر التبرعات." 

(كتاب الزكوة، شروط اداء الزكوة، ج:2، ص:227، ط:دارالكتاب الاسلامى)

بدائع الصنائع میں ہے:

"إذا كان لرجل مائتا درهم أو عشرون مثقال ذهب فلم يؤد زكوته سنتين يزكي السنة الأولى و كذا هكذا في مال التجارة و كذا في السوائم·"

(بدائع الصنائع، كتاب الزكوة ۲/ ۷ ط: سعيد)

وفیہ ایضا:

"وإنما له ولاية النقل إلى القيمة يوم الأداء فيعتبر قيمتها يوم الأداء، والصحيح أن هذا مذهب جميع أصحابنا."

(بدائع الصنائع، كتاب الزكوة ، فصل اموال التجارة ۲ /۲۲ ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100143

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں