کیا میت کی طرف سے قربانی کرسکتے ہیں ؟
میت کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے اور اس کا ثواب میت کو پہنچتا ہے، روایت میں آتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دنبہ اپنی طرف سے قربانی کرتے تھے اور ایک دنبہ نبی کریم ﷺ کی طرف سے قربانی کرتے تھے۔
میت کی طرف سے قربانی کرنے کی دو صورتیں ہیں:
(۱) اگر مرحوم نے قربانی کرنے کی وصیت کی تھی اور اس کے ترکہ میں مال بھی تھا تو اس کے ایک تہائی ترکہ اس وصیت کو پورا کرنا لازم ہے اور اس قربانی کے گوشت کو صدقہ کرنا ضروری ہے، مال داروں کے لیے اس وصیت کی قربانی کا گوشت کھانا جائز نہیں ہے۔
(۲) اگر میت نے قربانی کرنے کی وصیت نہیں کی بلکہ کوئی عاقل بالغ شخص اپنی خوشی سےاپنی طرف سے میت کے لیے قربانی کرتا ہے تو یہ قربانی حقیقت میں قربانی کرنے والی کی طرف سے ہوگی اور اس کا ثواب میت کو پہنچے گا، اور اس قربانی کا گوشت مال دار اور فقیر سب کھاسکتے ہیں۔
اس دوسری صورت میں میت کی طرف سے قربانی کرنے کے دو طریقہ ہیں:
۱۔۔ میت کے نام پر ایک حصہ یا ایک چھوٹے جانور کی قربانی کی جائے۔
۲۔۔ قربانی کرنے والے اپنی واجب قربانی کے علاوہ ایک اور حصہ اپنے قربانی کرے اور اس کا ثواب میت کو پہنچادے ، دونوں صورتیں صحیح ہیں۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: وعن میت) أي لو ضحی عن میت وارثه بأمره ألزمه بالتصدیق بها وعدم الأکل منها، وإن تبرع بها عنه له الأکل؛ لأنه یقع علی ملك الذابح والثواب للمیت؛ ولهذا لو کان علی الذابح واحدة سقطت عنه أضحیته، کما في الأجناس. قال الشرنبلالي: لکن في سقوط الأضحیة عنه، تأمل. أقول: صرح في فتح القدیر في الحج عن الغیر بلا أمر أنه یقع عن الفاعل فیسقط به الفرض عنه وللآخر الثواب، فراجعه".
(كتاب الأضحية، ج:9، ص: 484، ط: سعید)
فتاوی قاضی خان میں ہے:
"ولو ضحی عن میت من مال نفسه بغیر أمر المیت جاز، وله أن یتناول منه ولایلزمه أن یتصدق به؛ لأنها لم تصر ملکًا للمیت؛ بل الذبح حصل علی ملکه، ولهذا لو کان علی الذابح أضحیة سقطت عنه".
(فتاویٰ قاضي خان علی هامش الفتاویٰ الهندیة ج: 3، ص: 352 )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144410101401
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن