عرض یہ ہے کہ ہمارے والدین کا انتقال ہوگیا ہے،پہلے والدہ کا ہوا تھا،پھر پانچ سال بعد 2011ء میں والد صاحب کا انتقال ہوا،والد کے ورثاء میں تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے،والد کے والدین پہلے ہی انتقال کر گئے تھے،والد نے اپنے ذاتی پیسوں سے ایک گھر خریدا تھا،جس میں ہم تینوں بھائی رہتے ہیں اور بہن شادی شدہ ہے،میں چاہتا ہوں کہ مکان بیچ کر بہن کو اس کا شرعی حصہ دے دیا جائے،اور کوئی صورت نہیں ہے،جب میں اپنے دونوں بھائیوں سے اس سلسلے میں بات کرتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم کہاں جائیں گے،بڑے بھائی نے کہاکہ ہم ہر مہینے پانچ دس ہزار روپے جمع کریں اور پانچ چھ سال بعد جو رقم جمع ہو وہ بہن کو ادا کردیں،مگر یہ بھی نہ ہوسکا،ہماری راہ نمائی فرمائیں کہ حصہ دینا کتنا ضروری ہے اور کس طرح ادا کریں،میراث کی تقسیم کا طریقہ بھی بتادیں؟
واضح رہے کہ میت کے انتقال کے بعد میت ترکہ میں جن حقوق کی ادائیگی واجب ہے، ان کی ادائیگی کے بعد ،باقی میراث میں وارثوں کا حق متعلق ہوجاتا ہے اور ان کے درمیان جلد از جلد تقسیم کردینی چاہیے ،تاخیر ہونے سے بہت زیادہ پیچیدگیاں اور بدگمانیاں پیدا ہوتی ہیں اور بعض مرتبہ زیادہ تاخیر ہونے سے تقسیم ِ میراث میں سخت الجھنیں اور مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں اور حق تلفی تک کی نوبت پہنچ جاتی ہے،لہٰذا سائل اور اس کے بھائیوں کو چاہیے کہ والد کی میراث کی تقسیم میں مزید تاخیر سے کام نہ لیں ،جہاں تک رہائش کا تعلق ہے اس کے لیے متبادل صورت اختیار کی جائے،بہن کی رضامندی کے بغیر مذکورہ مکا ن میں سے اس کے حصہ کے بقدر میں بھائیوں کا رہائش اختیار کرنا جائز نہیں ہے،اگر کوئی دوسری صورت نہ ہو اورمذکورہ مکان میں بھائی رہائش اختیار کرنا چاہتے ہیں تو باہمی رضامندی سے مکان کی قیمت لگا کر ہر ایک کا حصہ متعین کر لیا جائے اور پھر بھائی ،بہن کا حصہ خرید لیں اور رقم بہن کو ادا کر دیں۔
والد صاحب کی میراث کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کے حقوق متقدمہ (تجہیزو تکفین کے اخراجات)ادا کرنے کے بعد،اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو کل مال سے ادا کرنے کے بعد،اور مرحوم نے اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی مال کے تہائی حصہ میں سے اسے نا فذ کرنے کے بعد باقی تمام ترکہ منقولہ و غیر منقولہ کو7 حصوں میں تقسیم کر کے ہر ایک بیٹے کو دوحصے اور بیٹی کو ایک حصہ ملےگا۔
صورت تقسیم یہ ہے:
میت:7۔۔والد
بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی |
2 | 2 | 2 | 1 |
یعنی فیصد کے اعتبار سے ہر ایک بیٹے کو28.714 فیصد اور بیٹی کو14.285 فیصد ملے گا۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144305100276
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن