بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کے گھر والوں کے لئے کھانے کے لیے پیسے جمع کرنے کا حکم


سوال

ہمارے خاندان کے افراد نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ  ہر گھر میں سے ہر فرد پر ماہانہ 100 روپے ہوں گے، چاہے بالغ ہو یا نابالغ ، اور ان پیسوں کو خاندان کے معزز افراد کے پاس جمع کیا جائے گا، اور اس خاندان میں جب بھی کسی کا انتقال ہو جائے تو اس فنڈ میں سے اس میت کے گھر والوں کے لیے بکرے یا گائے کی صورت میں کھانے کا بندوبست کیا جائے گا  تاکہ میت کے گھروالے اور دیگر ان کے ہاں آئے ہوئے مہمان حضرات کھائیں۔

کیا شرعاً اس طرح فنڈ جمع کیا جاسکتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ میت کے اہلِ خانہ کے کھانے کا انتظام کرنا میت کے رشتہ داروں اور ہمسایوں کے لیے مستحب ہے، لیکن سوال میں ذکر کردہ طریقے کے مطابق ہر گھر میں سے ہر فرد پر ماہانہ سو روپے، چاہے بالغ ہو یا نابالغ، لازم کرنا اور اس فنڈ سے میت کے گھر والوں کے لیے بکرے یا گاۓ کی صورت میں کھانے کا بندوبست کرنے میں مندرجہ ذیل قباحتیں ہیں:

1۔ ہوسکتا ہے کہ خاندان کے کچھ افراد اتنے غریب اور تنگ دست ہوں کہ ماہانہ سو روپےادا کرنا بھی ان کی وسعت میں نہیں ہو،  لیکن خاندانی دباؤ یا معاشرتی رواداری کی خاطر یا لوگوں کی باتوں سے بچنے کے لیے وہ مجبوراً یہ رقم جمع کراتے ہیں، یوں وہ رقم تو جمع کرادیتے ہیں، لیکن اس میں خوش دلی کا عنصر مفقود ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ مال استعمال کرنے والے کے لیے حلال طیب نہیں ہوتا۔

2۔  اس طریقہ کار میں کھانا کھلانا ایک عمومی دعوت کی شکل اختیار کرجاتا ہے، حالانکہ  مستحب یہ ہے کہ یہ انتظام صرف میت کے گھر والوں کے لیے ہو۔ لہٰذا اس طرح لازمی طور پر خاندان کے ہر فرد سے پیسے جمع کرنے سے گریز کیا جاۓ۔ 

فتاویٰ شامی میں ہے: 

"ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم، لقوله - صلى الله عليه وسلم - «اصنعوا لآل جعفر طعاما فقد جاءهم ما يشغلهم» حسنه الترمذي وصححه الحاكم ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون.

مطلب في كراهة الضيافة من أهل الميتوقال أيضا: ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة. وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال: كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة."

(كتاب الجنائز، فروع في الجنائز، ج: 2، ص: 240، ط: دار الفكر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144309100049

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں