بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کے گھر ختم اور چالیسواں وغیرہ غیر شرعی امور کےکرنے اور بچوں سے قرآن پڑھواکر انہیں کھانا کھلانے کا حکم


سوال

ہمارے علاقے میں یہ رواج ہے کہ جب کوئی شخص فوت ہوجاتاہےتو ہر جمعہ کو ختم کراتے ہیں اور چالیسواں وغیرہ کراتے ہیں ، شرعاً ان کی کیا حیثیت ہے؟

اسی طرح مدرسہ کے بچوں کو لاکر قرآن مجید پڑھانا اورکھانا کھلانا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ میت کے لیےدعا اور استغفار کرنا اور صدقہ وخیرات دینا اور بلااجرت  قرآن کریم پڑھ کر ایصالِ ثواب کرنا ، اسی طرح نفلی نماز وروزہ اور حج وغیرہ سے میت کو ثواب پہنچانا جائز اور صحیح ہے، لیکن ایصالِ ثواب کے لیے شریعت حقہ نے دنوں اور تاریخوں کی کوئی تعیین وتخصیص نہیں کی ہے، اور اپنی طرف سے ایسی تعیین کرنا بدعت ہے ، دلائلِ اربعہ میں سے کوئی دلیل اس پر دال نہیں ہےکہ ایصالِ ثواب کے لیے دنوں کی تعیین ضروری ہے، بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ رسم مسلمانوں نے اہلِ ہنود سے لی ہے، کیوں کہ ان کے نزدیک ایصالِ ثواب کے لیے دنوں کی تعیین ہے۔(مستفاد از راہِ سنت)

۱۔لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مروجہ رسومات یعنی ہر جمعہ کو ختم کرانا اورمیت کا  چالیسواں وغیرہ کرناشرعاً ثابت نہیں، لہٰذا یہ   بدعت ہیں ، ان کا ترک کرناضروری ہے۔  

۲۔اہلِ خانہ اپنے طور پر جب چاہیں قرآن کریم کی تلاوت ،ذکر اذکار، درود شریف پڑھ کر اور صدقہ خیرات کرکے ایصالِ ثواب کرسکتے ہیں ، جو عمل اخلاص سے کیا جائے وہ مقبول ہوتاہے، اس سے میت کو ہی فائدہ پہنچتاہے، اور جس قرآن خوانی کے بعد کھانا کھلایا جائے تویہ  معاوضہ بن جاتاہے، اس سے پڑھنے والوں کو ثواب نہیں ملتاتو مرحوم کے لیے ایصالِ ثواب کیا ہوگا؟ اس لیے مروّجہ قرآن خوانی سے احتراز کرکے اوپر ذکر کردہ طریقہ کے مطابق عمل کیا جائے۔

مفتی کفایت اللہ صاحبؒ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:

"قبروں کا چڑھاواحرام ہے، گیارہویں ، عرس، چالیسواں اور قبروں پر دھوم دھام کرنا یہ سب بدعت ہے۔"

(کتاب الحظروالاباحۃ، ج:۹، ص:۱۲۰ ط:دارالاشاعت)

فتاوی شامی میں ہے:

"ويكره ‌اتخاذ ‌الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة: وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال " كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة ". اهـ. وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص. والحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره. وفيها من كتاب الاستحسان: وإن اتخذطعاما للفقراء كان حسنا اهـ وأطال في ذلك في المعراج. وقال: وهذه الأفعال كلها للسمعة والرياء فيحترز عنها لأنهم لا يريدون بها وجه الله تعالى۔

(باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب فی الثواب علی المصیبۃ، ج:۲، ص:۲۴۰، ط:سعید)

وفيه ايضا:

"قال تاج الشريعة في شرح الهداية: إن القرآن ‌بالأجرة لا يستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء ‌بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان بل جعلوا القرآن العظيم مكسبا ووسيلة إلى جمع الدنيا۔"

(باب الاجارۃ الفاسدہ، مطلب فی الاسئجار علی المعاصی، ج:۶، ص:۵۶، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100845

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں