میرے شوہر کا گزشتہ ماہ انتقال ہوگیا ہے،ان کی عمر 54 سال تھی، میرے شوہر نے 42 سال سے روزے نہیں رکھے، جس میں سے 13 سال سے منہ کے کینسر میں مبتلا تھے، اس عرصے میں نماز کی ادائیگی ہوئی بھی ہے، اور نہیں بھی ہوئی،میرے شوہر کی جائیداد میں ایک گودام تھا، جو ان کے انتقال کے بعد ابھی بیچا ہے،اس کی رقم سے روزے اور نماز کا فدیہ کس طرح اور کس کودیں،شوہر نے فدیہ کی وصیت نہیں کی۔
1۔ اگر سائلہ کے مرحوم شوہر نے اپنی نمازوں اور روزوں کے فدیہ کی وصیت نہیں کی تو شرعاً ورثاء پران کی نماز اور روزہ کا فدیہ ادا کرنا لازم نہیں، مرحوم کی جانب سے وصیت نہ ہونے کی صورت میں ورثاء کی اجازت کے بغیر مشترکہ ترکہ سے فدیہ ادا کرنا جائز نہیں، البتہ اگر ورثاء از خود باہمی رضامندی سے یاآپ (یا اور کوئی وارث) اپنی جانب سے ان کی نماز،روزوں کا فدیہ ادا کر دے تو امید ہے کہ مرحوم آخرت کی باز پرس سے بچ جائیں گے، اسی طرح اگر مرحوم کے تمام ورثاء بالغ ہوں، اور وراثت کی تقسیم سے قبل مرحوم کی نمازوں کا فدیہ دینے تیار ہوں، تو اس صورت میں مشترکہ ترکہ سے بھی فدیہ دیا جا سکتا ہے، تاہم اگر ورثاء میں کوئی نا بالغ ہو، یا کوئی بالغ وارث مرحوم کا فدیہ دینے تیار نہ ہو، تو اس کے وراثتی حصہ سے فدیہ ادا کرنے کی شرعا اجازت نہیں ہوگی۔
2۔ اگر فوت شدہ نماز اور روزوں کی تعدادمعلوم نہ ہو، تو غالب گمان کےمطابق ان نمازوں کا حساب لگا کر ان سے کچھ زیادہ کا حساب رکھ کر اس کے مطابق فدیہ ادا کیا جائے گا۔ ایک روزے کا فدیہ ایک صدقہ فطر کے برابر ہے، اور ایک نماز کا فدیہ بھی ایک صدقہ فطر کے برابر ہے، اور روزانہ وتر کے ساتھ چھ نمازوں کا فدیہ دیا جائے گا،اور ایک صدقہ فطر تقریباً پونے دو کلو گندم یا اس کاآٹا یا اس کی موجودہ قیمت ہے۔نیز فدیہ مستحق زکوٰة کو دینا ضروری ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے :
"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة(وكذا حكم الوتر) والصوم، وإنما يعطي (من ثلث ماله) ....(قوله: يعطى) بالبناء للمجهول: أي يعطي عنه وليه: أي من له ولاية التصرف في ماله بوصاية أو وراثة فيلزمه ذلك من الثلث إن أوصى، وإلا فلا يلزم الولي ذلك لأنها عبادة فلا بد فيها من الاختيار، فإذا لم يوص فات الشرط فيسقط في حق أحكام الدنيا للتعذر، بخلاف حق العباد فإن الواجب فيه وصوله إلى مستحقه لا غير، ولهذا لو ظفر به الغريم يأخذه بلا قضاء ولا رضا، ويبرأ من عليه الحق بذلك إمداد.ثم اعلم أنه إذا أوصى بفدية الصوم يحكم بالجواز قطعا لأنه منصوص عليه. وأما إذا لم يوص فتطوع بها الوارث فقد قال محمد في الزيادات إنه يجزيه إن شاء الله تعالى، فعلق الإجزاء بالمشيئة لعدم النص، وكذا علقه بالمشيئة فيما إذا أوصى بفدية الصلاة لأنهم ألحقوها بالصوم احتياطا لاحتمال كون النص فيه معلولا بالعجز فتشمل العلة الصلاة وإن لم يكن معلولا تكون الفدية برا مبتدأ يصلح ماحيا للسيئات فكان فيها شبهة كما إذا لم يوص بفدية الصوم فلذا جزم محمد بالأول ولم يجزم بالأخيرين، فعلم أنه إذا لم يوص بفدية الصلاة فالشبهة أقوى."
(كتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت، ج:2 ص:72 ط: سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606102195
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن