بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کے پاس بیٹھ کر کلمہ کا ورد کرنا


سوال

میرا سوال یہ ہے کہ میت کے پاس بیٹھ کر کس کلمہ کا ورد کرنا چاہیے؟ کیا پہلا کلمہ پڑھنا درست ہے یا پھر کلمہ شہادت پڑھنا چاہیے؟

جواب

 میت (جو شخص مر چکا ہو)کے پاس بیٹھ کر ذکر  و اذکار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، لہذا کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت دونوں کے  پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔

باقی میت کو غسل دینے سے پہلے اس کے پاس تلاوت کرنا جائز نہیں ہے، تاہم اگر میت کو پوری طرح کپڑے سے ڈھانک دیا گیا ہو تو اس کے پاس تلاوت کی جاسکتی ہے۔ اور  اگر میت  کو غسل دے دیا گیا ہو  اور اس کا جسم ڈھانکا گیا ہو تو  اس کے پاس بیٹھ کر تلاوت کرنا بھی جائز ہے۔ 

اور اگر اس سے مراد  مرنے والا (حالت نزع والا شخص ہے  )  تو  اگر کوئی شخص حالتِ نزع میں ہو  تو سنت یہ ہے کہ اس کو  قبلہ کی طرف متوجہ کرکے لٹادیا جائے، بشر ط یہ کہ اس سے اس کو تکلیف نہ ہو ورنہ اسی طرح چھوڑدیا جائے، اور اس کے قریب اس کے رشتہ دار کلمہ طیبہ / کلمہ شہادت کی تلقین کریں،تلقین کا مطلب یہ ہے کہ مرنے والے کے پاس خود  کلمہ پڑھتے رہیں کہ جسے سن کر نزع میں مبتلا شخص  خود کلمہ پڑھ لے، لیکن اس کو کلمہ پڑھنے کا حکم نہ دیا جائے، اور اس کے قریب سورۂ یاسین کی تلاوت کی جائے۔

سنن أبي داود میں ہے:

"عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، وَلَيْسَ بِالنَّهْدِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اقْرَءُوا يٰس عَلَى مَوْتَاكُمْ». وَهَذَا لَفْظُ ابْنِ الْعَلَاءِ".

(باب القراءة عند الميت، کتاب الجنائز، جلد5 ص:39، ط:دار الرسالۃ العلمیۃ)

فتاوى هندية میں ہے:

" إذا احتضر الرجل وجه إلى القبلة على شقه الأيمن وهو السنة، كذا في الهداية. وهذا إذا لم يشق ترك على حاله، كذا في الزاهدي ... ولقن الشهادتين، وصورة التلقين أن يقال عنده في حالةالنزع قبل الغرغرة جهراً وهو يسمع: أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمداً رسول الله، ولا يقال له: قل، ولايلح عليه في قولها؛ مخافة أن يضجر، فإذا قالها مرةً لايعيدها عليه الملقن إلا أن يتكلمبكلام غيرها، كذا في الجوهرة النيرة ... وحضور أهل الخير والصلاح مرغوب فيه ويستحب قراءة سورة يس عنده، كذا في شرح منية المصلي لابن أمير الحاج، ويحضر عنده من الطيب،كذا في الزاهدي، ولا بأس بجلوس الحائض والجنب عنده وقت الموت، كذا في فتاوى قاضي خان".

(الفصل الاول فی المحتضر ، جلد 1 ص:157 ، ط: دار الفکر بیروت)  

     فتاوی شامی میں ہے:

"ويقرأ عنده القرآن إلى أن يرفع إلى الغسل، كما في القهستاني معزياً للنتف. قلت: وليس في النتف إلى الغسل بل إلى أن يرفع فقط، وفسره في البحر برفع الروح. وعبارة الزيلعي وغيره: تكره القراءة عنده حتى يغسل، وعلله الشرنبلالي في إمداد الفتاح؛ تنزيهاً للقرآن عن نجاسة الميت لتنجسه بالموت، قيل: نجاسة خبث، وقيل: حدث، وعليه فينبغي جوازها كقراءة المحدث.

(قوله: كقراءة المحدث) …… [تنبيه] الحاصل أن الموت إن كان حدثاً فلا كراهة في القراءة عنده، وإن كان نجساً كرهت، وعلى الأول يحمل ما في النتف، وعلى الثاني ما في الزيلعي وغيره. وذكر ط أن محل الكراهة إذا كان قريباً منه، أما إذا بعد عنه بالقراءة فلا كراهة. اهـ. قلت: والظاهر أن هذا أيضاً إذا لم يكن الميت مسجى بثوب يستر جميع بدنه؛ لأنه لو صلى فوق نجاسة على حائل من ثوب أو حصير لايكره فيما يظهر، فكذا إذا قرأ عند نجاسة مستورة، وكذا ينبغي تقييد الكراهة بما إذا قرأ جهراً، قال في الخانية: وتكره قراءة القرآن في موضع النجاسة كالمغتسل والمخرج والمسلخ وما أشبه ذلك، وأما في الحمام فإن لم يكن فيه أحد مكشوف العورة وكان الحمام طاهراً لا بأس بأن يرفع صوته بالقراءة، وإن لم يكن كذلك فإن قرأ في نفسه ولايرفع صوته فلا بأس به ولا بأس بالتسبيح والتهليل وإن رفع صوته اهـ". 

(2 / 193، کتاب الصلوٰۃ، باب  صلاۃ الجنازۃ، ط؛ سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100715

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں