بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کے گھرانے کی باری باری دعوت کرنا


سوال

ہمارے ہاں گاؤں میں بھی اور یہاں شہر کراچی میں بھی یہ رسم رائج ہے کہ جب کسی بندے کا انتقال ہو جاتا ہے تو اگلے دن سے گاؤں والے باری باری اس میت کے گھر والوں کے  لیے دعوت کرتے ہیں ، یہاں تک کہ  گاؤں کا ہر گھرانہ باری باری دعوت کرتاہے،   اب اس میں جو غرباء حضرات ہیں شرم کی وجہ سے وہ ادھر اُدھر سے پیسے ادھار لے کر ان ورثاء کے  لیے دعوت کرتے ہیں۔

کیا یہ جائز ہے یا ناجائز؟  اگر نا جائز ہے تو کیا اس رواج کو ختم کرنے کے لیے  ہم قدم اٹھا سکتے ہیں ؟ حالانکہ برسوں سے رواج چلتا آ رہا ہے۔

جواب

واضح رہے کہ جس گھر میں فوتگی ہوئی ہو، اس گھر کے باسیوں کے لیے ایک دن اور رات کے کھانے کا انتظام محض ثواب کی نیت سے کرنا مستحب ہے، تاہم فوتگی کے دن سے تین دن تک میت کے گھروالوں کے لیے کھانے کے انتظام کرنے کی بعض فقہائے کرام نے اگرچہ  اجازت دی ہے، تاہم ان تین دنوں میں کھانے کے وقت دعوتوں کی طرح اہتمام کرنا، کھانے کے وقت لوگوں کا جمع ہونا، بالاتفاق مکروہ و بدعت ہے، اسی طرح تین دن کے بعد   تک دعوتوں  کا سلسلہ جاری رکھنا بدعت واجب الترک  ہے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيحمیں ہے:

"قال الطيبي: دل على أنه يستحب للأقارب والجيران تهيئة طعام لأهل الميت اهـ. والمراد طعام يشبعهم يومهم وليلتهم، فإن الغالب أن الحزن الشاغل عن تناول الطعام لا يستمر أكثر من يوم، وقيل: يحمل لهم طعام إلى ثلاثة أيام مدة التعزية، ثم إذا صنع لهم ما ذكر من أن يلح عليهم في الأكل لئلا يضعفوا بتركه استحياء، أو لفرط جزع، واصطناعه من بعيد أو قريب للنائحات شديد التحريم ; لأنه إعانة على المعصية، واصطناع أهل البيت له لأجل اجتماع الناس عليه بدعة مكروهة، بل صح عن جرير رضي الله عنه: كنا نعده من النياحة، وهو ظاهر في التحريم."

(كتاب الجنائز، باب البكاء على الميت، الفصل الثاني، ٣ / ١٢٤١، ط: دار الفكر )

فقه السنةمیں ہے:

"واتفق الائمة على كراهة صنح أهل الميت طعام للناس يجتمعون عليه، لما في ذالك من زيارة المصيبة عليهم وشغلاً إلى شغلهم وتشبهاً بصنع أهل الجاهلية لحديث جرير قال: كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعه الطعام بعد دفنه من النياحة." 

( الجنائز، استحباب صنع الطعام لأهل الميت، ١ / ٣٢٩، ط: دار ابن كثير)

المفصل في الفقه الحنفى لمحمد ماجد عترمیں ہے:

"من المقابح التي درج عليها الناس أيامنا هذه أن يقيم أهل الميت أو أقرباؤه وليمة الناس ثالث أيام وفاته، وهذه لا أصل لها في الشريعة، إذا المشروع كما أسفلنا إرسال طعام لأهل الميت يوم وفاته لاشتغالهم به وبأحزانهم عن ذالك، وإنما نشأت هذه العادت وتطورت بعد من أمر مشروع إلى أمر قبيح غير مشروع فقد بدأت على ما يبدو بأن يعد أهل المتى طعاما بناء على وصية أو تطوعاً منهم يوزعونه على الفقراء ، ثم تطورت إلى دعوه الفقراء إليهم ولاسيما أن هؤلاء كانوا يأتون طلبا للاحسان، ثم تطورت فأصبحت على شكلها الصبيح وليمة كبرى يدعى لها الوجهاء والأعيان والزملاء والأقرباء ولا يكاد يكون للفقراء منها نصيب ولأن الناس يقلد بعضهم بعض، فقد استحكمت هذه العادة فأصبحت وبالاً على أهل الميت وأقربائه ففوق مصائبهم وأحزانهم وأتراح قلوبهم ، يكون عليهم أن يعدوا الطعام ويحسنوا المائدة ويتكلفوا البشاشة في وجوه الضيوف."

(الفصل الثامن ، صلاة الجنازة وما يتبعها، الوليمة القبيحة، ص:٢٤٩، ط: دار الفكر)

لہذا صورت مسئولہ  میں سائل نے جو طریقہ ذکر کیا ہے کہ گاؤں کے تمام گھرانے  باری باری میت کے گھر والوں کے لیے دعوت کرتے ہیں، اور غرباء اس دعوت کے اہتمام کے لیے باقاعدہ قرضہ لیتے ہیں، یہ رسم شریعت کے خلاف، بدعت واجب الترک ہے، پس سائل اس مسئلہ کے حوالے سے اپنی برادری کو آگاہ کرے، اور اپنی برادری کے ذمہ داران  کی معیت میں مذکورہ بدعت فوری ختم کروانے میں اپنا کردار ادا کرے۔

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"جس کے گھر کسی کا انتقال ہو جائے اس دن اہل میت کے لئے کھانے کا انتظام کرنا:

(سوال ۱۳۱ ) ہمارے یہاں جب کسی کے گھر میت ہو جاتی ہے تو قریبی رشتہ دار یا پڑوسی ان کے لیے کھانے کا انتظام کرتے ہیں، کیا یہ جائز ہے؟ بدعت تو نہیں؟، اگر جائز ہو تواس کی دلیل ضرور تحریرفرمادیں۔ نیز یہ بھی تحریر فرمادیں کہ اس کھانے میں سے کون کون لوگ کھا سکتے ہیں؟

 (الجواب) کسی کے یہاں میت ہو جائے تو ان کے قریبی رشتے داروں اور پڑوسیوں کے لئے مستحب ہے کہ اس دن ان کے لیے کھانے کا انتظام کریں، اور خود ساتھ بیٹھ کر اصرار کر کے ان کو کھلائیں غم وحزن اور تجہیز وتکفین میں مشغولیت کی وجہ سے کھانا پکانے وغیرہ کا ان کو موقع نہیں ملتا، حضور اقدس ﷺ نے اس کا حکم بھی فرمایا ہے، حدیث میں ہے۔ "عن عبد الله بن جعفر رضي الله عنه قال: لما جاء نعي جعفر (أي خبر شهادته) قال النبي صلي اللہ عليه وسلم: اصنعوا لآل جعفر طعاماً فقد اتاهم ما يشغلهم." رواه الترمذي وابو داؤد و ابن ماجة (مشكوة شريف، ص: 151، باب البكاء على الميت)

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن جعفر" سے روایت ہے کہ جب میرے والد حضرت جعفر کی شہادت کی خبر آئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لوگوں سے ارشاد فرمایا: تم جعفر کے گھر والوں کے لئے کھانا تیار کرو، ان کے پاس ایسی ( غمناک ) خبر آئی ہے جس نے ان کو مشغول کر رکھا ہے۔

مشکوۃ شریف کے حاشیہ میں بحوالہ لمعات نقل فرمایا ہے۔ 

قوله (٤) اصنعوا لآل جعفر طعاماً في الحديث دليل على انه يستحب للجيران والأقارب تهيئة الطعام لأهل الميت، واختلفوا فى اكل غير اهل المصيبة ذلك الطعام وقال ابو القاسم لا بأس لمن كان مشغولا بجهاز الميت كذا فى وصايا جامع الفقه ۱۲ (حاشیه: ٤، مشکوة شریف ص: 151) 

ترجمہ: یعنی مذکورہ حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ پڑوسیوں اور رشتے داروں کے لئے مستحب ہے کہ وہ اہل میت کے لئے کھانے کا انتظام کریں، اہل میت کے علاوہ دوسرے لوگ یہ کھانا کھاسکتے ہیں یا نہیں اس میں علماء کا اختلاف ہے، علامہ ابو القاسم فرماتے ہیں: جو لوگ اہل میت کے تعاون اور تجہیز و تکفین میں مشغول ہوں ان کے لیے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ 

مرقاۃ شرح مشکوۃ میں ہے: 

قال الطيبي دل علي أنه يستحب للأقارب والجيران تهيئة الطعام لأهل الميت انتهى

والمراد طعام يشبعهم يومهم وليلتهم فأن الغالب أن الحزن الشاغل عن تناول الطعم لا يستمر اكثر من يوم الى قوله. ثم إذا صنع لهم ما ذكر من أن يلح عليهم فى الأكل لئلا يضعفوا بتركه إستحياءً او بفرط جزع الخ (مرقاة شرح مشكوة ص:96، ج:4 باب البكاء على الميت) 

ترجمہ: یعنی یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اقرباء اور پڑوسیوں کے لئے مستحب ہے کہ اہل میت کے لئے کھانے کا انتظام کریں اور یہ حدیث کی مراد ایک دن رات کھانے کا انتظام کرنا ہے اس لئے کہ عام طور پر غم و حزن کی وجہ سے ایک دن کھانے کے انتظام سے قاصر رہتا ہے۔ الی قولہ ۔ پھر جس طرح کھانے کا انتظام کرنا مستحب ہے، یہ بھی سنت ہے کہ اصرار کر کے ان کو کھلائیں تا کہ غم وحزن یا حیا کی وجہ سے ترک طعام کی بناء پر کمزور نہ ہو جائیں۔ 

شامی میں ہے: 

(قوله و باتخاذ طعام لهم ) قال في الفتح ويستحب لجيران أهل الميت والا قرباء الاباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم لقوله صلي اللہ عليه وسلم "إصنعوا لآل جعفر طعاماً فقد أتاهم ما يشغلهم" حسنه الترمذي وصححه الحاكم ولأنه بر معروف ويلح عليهم في الأكل لان الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون .اه (شامی ج1 /83، كراهة الضيافة من اهل الميت ) ( غاية الا وطار ج 1 / 422) 

لہذا صورت مسئولہ میں حدیث پر عمل کرنے کی نیت سے اہل میت کے رشتہ دار پڑوسی یا متعلقین ان کے لیے کھانے کا انتظام کریں تو یہ امر مستحب ہے اور قابل اجر و ثواب ہے اور اہل میت کے ساتھ اظہار ہمدردی اور غمخواری بھی ہے، مگر یہ کام صرف رضاء الہی اور عمل بالحدیث کی نیت سے ہونا چاہئے محض رسما دکھاوے اور ناموری کی نیت نہ ہو اور محققین کے نزدیک اس کی میعاد ایک دن رات ہے۔

حضرت شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:

اکتیسواں مسئلہ ۳۱: دستور ہے مرنے کے بعد اہل قرابت میت کے اور ہمسایہ اس کے اس میت کے گھر کھانا بھیجتے ہیں سو کئی دن تک کھانا بھیجنا اہل مصیبت کو جائز ہے؟ 

( الجواب) مستحب ہے ایک دن رات تک پیٹ بھر کے کھانا بھیجنا میت کے گھر اقرباء اور ہمسایہ کے لوگوں کو ، چنانچہ برہان شرح مواہب الرحمن میں لکھا ہے:

"ويستحب للجيران وأهل البيت والاقرباء الأباعد تهيأ طعام لهم يشبعهم يومهم و ليلهم انتهى. 

وعن عبد الله بن جعفر قال: "لما جاء نعي جعفر قال النبي صلى الله عليه وسلم: إصنعوا لأهل جعفر طعاماً فإنه قد جاءهم ما يشغلهم." رواه الترمذى وهكذا في المشكوة مع فرق بعض الالفاظ.

جیسا کہ برہان شرح مواہب الرحمن میں لکھا ہے: اور مستحب ہے ہمسایہ کے لوگوں اور گھر والوں اور رشتہ داروں اور جو رشتہ نہیں رکھتے ان لوگوں کو میت کے لوگوں کے لیے کھانا بھیجنا اتنا کہ ایک رات دن پیٹ بھرنے کو کفایت کرے، اور عبداللہ بن جعفر سے روایت ہے کہ جب خبر پہنچی حضور ﷺ کو جعفر کے مرنے کی، فرمایا آپ نے کہ: "تیار کرو جعفر کے لوگوں کے لیے کھانا، پہنچی ان کے پاس وہ بات جس نے باز رکھا ان کو شغل سے یعنی گھر کے کاموں سے۔" روایت کی اس کو ترمذی نے ، اور جامع البرکات میں لکھا ہے کہ: یہ حدیث دلیل ہے اس پر کہ خوایش و اقرباء، دوست، ہمسایہ کو میت کے گھر کھانا بھیجنا مستحب ہے، اور بعضوں نے کہا ہے کہ مصیبت والوں کو پہلے دن مصیبت کے کھانا مکروہ نہیں ہے کیونکہ وہ تجہیز و تکفین کے کاموں میں مشغول رہتے ہیں اور دوسرے روز بھیجنا مکروہ ہے اگر بین کرنے والی عورتیں جمع ہوں ، کیونکہ اس سے مدد پنپتی ہے گناہ پر اور اختلاف کیا ہے علماء نے کہ وہ کھانا مصیبت والوں کے سوائے اور لوگوں کو کھانا درست ہے یا نہیں ، ابوالقاسم نے کہا ہے کہ کچھ مضائقہ نہیں کھانا اس کا جو میت کے کام میں مشغول ہے اور ایسا ہی لکھا ہے مطالب المؤمنين ميں۔ (مسائل اربعين في سنة سـید المرسلين ص: ۴۸ ، ۴۹) فقط والله اعلم بالصواب"

( کتاب الجنائز، 7/ 138 تا 140، ط: دار الاشاعت )

رد المحتار علي الدر المختارمیں ہے:

"(قوله: وباتخاذ طعام لهم) قال في الفتح: ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم، لقوله صلى الله عليه وسلم: «اصنعوا لآل جعفر طعاماً فقد جاءهم ما يشغلهم». حسنه الترمذي وصححه الحاكم؛ ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل؛ لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون. اهـ.

مطلب في كراهة الضيافة من أهل الميت

وقال أيضاً: ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت؛ لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة: وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال: " كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة ". اهـ. وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص. والحاصل: أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره. وفيها من كتاب الاستحسان: وإن اتخذ طعاماً للفقراء كان حسناً اهـ وأطال في ذلك في المعراج. وقال: وهذه الأفعال كلها للسمعة والرياء فيحترز عنها لأنهم لايريدون بها وجه الله تعالى. اهـ. وبحث هنا في شرح المنية بمعارضة حديث جرير المار بحديث آخر فيه «أنه عليه الصلاة والسلام دعته امرأة رجل ميت لما رجع من دفنه فجاء وجيء بالطعام» . أقول: وفيه نظر، فإنه واقعة حال لا عموم لها مع احتمال سبب خاص، بخلاف ما في حديث جرير. على أنه بحث في المنقول في مذهبنا ومذهب غيرنا كالشافعية والحنابلة استدلالاً بحديث جرير المذكور على الكراهة، ولا سيما إذا كان في الورثة صغار أو غائب، مع قطع النظر عما يحصل عند ذلك غالباً من المنكرات الكثيرة كإيقاد الشموع والقناديل التي توجد في الأفراح، وكدق الطبول، والغناء بالأصوات الحسان، واجتماع النساء والمردان، وأخذ الأجرة على الذكر وقراءة القرآن، وغير ذلك مما هو مشاهد في هذه الأزمان، وما كان كذلك فلا شك في حرمته وبطلان الوصية به، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم". 

(کتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ٢/ ٢٤٠،  ط: دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"حمل الطعام إلى صاحب المصيبة والأكل معهم في اليوم الأول جائز لشغلهم بالجهاز، وبعده يكره، كذا في التتارخانية."

( كتاب الكراهية، الباب الثاني عشر في الهدايا والضيافات، ٥ / ٣٤٤، ط: دار الفكر)

فتح القدیر لابن الهماممیں ہے:

"ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة. روى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال: كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة. ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: «اصنعوا لآل جعفر طعاماً فقد جاءهم ما يشغلهم». حسنه الترمذي وصححه الحاكم؛ ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل؛ لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون، والله أعلم". 

(کتاب الصلاة، قبیل باب الشهید، ٢ / ١٠٢، ط: رشیدیه)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وعن أبي القاسم في حمل الطعام إلى أهل المصيبة والأكل عندهم قال: حمل الطعام في الابتداء غير مكروه لاشتغال أهل المصيبة بتجهيز الميت ونحوه، فأما حمل الطعام في اليوم الثالث لا يستحب؛ لأن في اليوم الثالث تجتمع النائحات فإطعامه في ذلك اليوم يكون إعانة على المعصية، كذا في فتاوى قاضي خان."

( كتاب الوصايا، الباب الثاني في بيان الألفاظ التي تكون وصية والتي لا تكون وصية، ٦ / ٩٥، ط: دار الفكر )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144503102374

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں