بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میت (عورت) کو غسل دینے کا طریقہ


سوال

عورتوں کو کس طرح غسل دیا جائے ؟

 

جواب

عورت کو غسل دینے کا طریقہ بھی وہی ہے جیسا کہ مردوں کا ہے، البتہ عورت کو عورت ہی غسل دے جو حیض و نفاس سے اور جنابت سے پاک ہو، اس کا شوہر بھی غسل نہ دے۔ غسل کا تفصیلی طریقہ یہ ہے:

غسل کی تیاری میں مندرجہ ذیل چیزوں کا اہتمام کر لیں: 
 بیری کے پتے ڈال کرپانی نیم گرم کرلیں ، ورنہ سادہ پانی ہی کافی ہے ۔ 

غسل کے تختہ کو طاق عدد میں لوبان ،اگر بتی یا کسی خوشبو دار چیز کی دھونی دے دیں ۔
میت کے ستر پر (ناف سے لے کر گھٹنوں سمیت) موٹا کپڑا ڈال کر بدن کے کپڑے اتار لیں ،وہ کپڑا اتنا موٹا ہونا چاہیے کہ بھیگنے کے بعد بدن نظر نہ آئے ۔
جس جگہ غسل دیا جائے وہاں پردہ ہونا چاہیے ۔ (ہندیہ : 1/158)
سب سے پہلے میت کو استنجا کرایا جائے گا ، اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہاتھوں میں دستانے پہن کریا کوئی موٹا کپڑا لپیٹ کر میت کے ستر پر موجود کپڑے کے اندر اندر ہی سے دھویا جائے گا۔  شرم گاہ یا رانوں کے حصے کو بلا حائل چھونا ، یا دیکھنا درست نہیں ۔
پھر میت کو وضو کرائیں،میت کو وضو کرانے میں کلی اور ناک میں پانی ڈالنے کا عمل نہیں کیا جائے گا ، اسی طرح گٹوں تک ہاتھ بھی نہیں دھلائے جائیں گے ۔ بلکہ روئی کو تر کر کے دانتوں ، مسوڑھوں اور ناک کے دونوں سوراخوں میں تین تین مرتبہ پھیر دی جائےگی ، یہ کرنا ضروری نہیں ہے ، لیکن اگر میت کا حیض و نفاس یا جنابت کی حالت میں انتقال ہوا ہو تو یہ کرنا ضروری ہو جاتا ہے ۔اُس کے بعد ناک ، منہ اور کانوں میں روئی رکھ دیں ، تاکہ وضو اور غسل میں پانی اندر نہ جائے ۔ پھر پہلے چہرہ پر پانی ڈالیں گے ، پھر دونوں ہاتھ کہنیوں سمیت دھوئیں گے ، پھر سر کا مسح کرایا جائے گا ، پھر دونوں پاؤں کو دھوئیں گے ۔
میت کے جسم پر تین مرتبہ پانی بہایاجائے گا : پہلی اور دوسری مرتبہ بیری کے پتوں میں پکا ہوا پانی اور تیسری مرتبہ کافور ملا ہوا پانی بہائیں گے ۔ 
پانی بہانے کی تفصیل یہ ہے : وضو کے بعد پانی بہانے سے قبل میت کے سر کو صابن وغیرہ سے خوب مَل کر دھویا جائے گا ۔پھر مُردے کو بائیں کروٹ پر لٹا کر بیری کے پتوں میں پکایا ہوا نیم گرم پانی دائیں کروٹ پر تین دفعہ سر سے پیر تک اتنا ڈالیں گے کہ نیچے کی جانب یعنی بائیں کروٹ پر پہنچ جائے ۔ پھر دائیں کروٹ پر لٹا کر اسی طرح سر سے پیر تک تین دفعہ اتنا پانی ڈالیں گے کہ نیچے کی جانب یعنی دائیں کروٹ تک پانی پہنچ جائے ۔ 
اُس کے بعد میت کو اپنے بدن سے ٹیک لگاکر ذرا سا بٹھانے کے قریب کرکے اُس کے پیٹ کو اوپر سے نیچے کی طرف آہستہ آہستہ ملیں اور دبائیں گے، اگر کچھ فضلہ خارج ہو تو صرف اُس کو صاف کردیا جائے گا ، وضو اور غسل کو دہرانے کی ضرورت نہیں ، اس لیے کہ اس سے وضو اور غسل میں کوئی نقصان نہیں ہوتا ۔
بس یہاں تک غسل مکمل ہوگیا۔ اُس کے بعد کسی کپڑے سے میت کے بدن کو خشک کرکے اوپر کا گیلا کپڑا بدل دیں گے ، اور جسم پر کافور مل دیں گے۔ پھر اسے کفنایاجائے گا۔
فائدہ: میت کو غسل دینے کے بعد خود بھی غسل کرلینا مستحب ہے ۔

الفقه على المذاهب الأربعة میں ہے:

"الحنفية قالوا: ‌يوضع ‌الميت ‌على شيء مرتفع ساعة الغسل - كخشبة الغسل - ثم يبخر حال غسله ثلاثاً أو خمساً أو سبعاً بأن تدار المجمرة حول الخشبة ثلاث مرات أو خمساً أو سبعاً، كما تقدم ثم يُجرد من ثيابه ما عدا ساتر العورة، ويندب أن لا يكون معه أحد سوى الغاسل ومن يعينه، ثم يلف الغاسل على يده خرقة، يأخذ بها الماء ويغسل قُبُله ودبره - الاستنجاء -، ثم يوضأ، ويبدأ في وضوئه وجهه، لأن البدء بغسل اليدين إنما هو للأحياء الذين يغسلون أنفسهم فيحتاجون إلى تنظيف أيديهم، أما اللميت فإنه يغسله غيره، ولأن المضمضة والاستنشاق لا يفعلان في غسل الميت، ويقوم مقامهماتنظيف الأسنان والمنخرين بخرقة، كما تقدم ثم يغسل رأسه ولحيته بمنظف كالصابون ونحوه إن كان عليهما شعر؛ فإن لم يكن عليهما شعر لا يغسلان كذلك؛ ثم يضجع الميت على يساره ليبدأ بغسل يمينه، فيصب الماء على شقه الأيمن من رأسه إلى رجليه ثلاث مرات حتى يعم الماء الجانب الأسفل، ولا يجوز كب الميت على وجهه لغسل ظهره، بل يحرك من جانبه حتى يعمه الماء؛ وهذه هي الغسلة غسلتان أخريان؛ وذلك بأن يضجع ثانياً على يمينه ثم يصب الماء على شقه الأيسر ثلاثاً بالكيفية المتقدمة؛ ثم يجلسه الغاسل ويسنده إليه ويمسح بطنه برفق ويغتسل ما يخرج منه، وهذه هي الغسلة الثانية، ثم يضجع بعد ذلك على يساره ويصب الماء على يمينه بالكيفية المتقدمة، وهذه هي الغسلة الثالثة، وتكون الغسلتان الأوليان بماء ساخن مصحوب بمنظف، كورق النبق والصابون، أما الغسلة الثالثة فتكون بماء مصحوب بكافور؛ ثم بعد ذلك يجفف الميت ويوضع عليه الطيب، كما تقدم.هذا؛ ولا يشترط لصحة الغسل نية، وكذلك لا تشترط النية لإسقاط فرض الكفاية على التحقيق، إنما تشترط النية لتحصيل الثواب على القيام بفرض الكفاية."

 (كتاب الصلاة، مباحث الجنائز، كيفية غسل الميت، ج:1، ص:463/464، ط:دار الكتب العلمية۔بيروت)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وحكم المرأة في الغسل حكم الرجل وكذا الصبي في الغسل كالبالغ؛ لأن غسل الميت للصلاة عليه، والصبي والمرأة يصلى عليهما."

(كتاب الصلاة، فصل الغسل، فصل بيان كيفية الغسل للميت، ج:1، ص:302، ط:دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144505101117

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں