بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کے قریب تلاوت اور ذکر و اذکار کرنا


سوال

 میت صحن میں رکھی ہوئی ہو، اس کا سارا جسم کپڑے سے ڈھکاہوا ہو لیکن صرف چہرہ نظر آرہا ہو تو کیا میت کے قریب قرآن کی تلاوت، ذکر و اذکار کرنا جائز ہے؟

نیز کیا میت کے قریب یا دور ہونے کی وجہ سے حکم تبدیل ہوگا؟

جواب

صورت مسئولہ میں میت کو غسل دینے سے قبل اس کے قریب تلاوت کرنا مکروہ ہے، تاہم اگرمیت کو مکمل طور پر ڈھانک دیا گیا ہو تو اس صورت میں میت کے قریب تلاوت کی جاسکتی ہے، البتہ اگر میت کو غسل دے دیا گیا تو  اس صورت میں میت کے قریب تلاوت کرنا  بلا کراہت جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ نیز میت کے قریب بیٹھ کر ذکر و اذکار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ويقرأ عنده القرآن إلى أن يرفع إلى الغسل كما في القهستاني معزيا للنتف. قلت: وليس في النتف إلى الغسل بل إلى أن يرفع فقط، وفسره في البحر برفع الروح. وعبارة الزيلعي وغيره تكره القراءة عنده حتى يغسل، وعلله الشرنبلالي في إمداد الفتاح تنزيها للقرآن عن نجاسة الميت لتنجسه بالموت قيل نجاسة خبث وقيل حدث، وعليه فينبغي جوازها كقراءة المحدث۔ قال ابن عابدین: (قوله كقراءة المحدث)... [تنبيه] الحاصل أن الموت إن كان حدثا فلا كراهة في القراءة عنده، وإن كان نجسا كرهت، وعلى الأول يحمل ما في النتف وعلى الثاني ما في الزيلعي وغيره. وذكر ط أن محل الكراهة إذا كان قريبا منه، أما إذا بعد عنه بالقراءة فلا كراهة. اهـ. قلت: والظاهر أن هذا أيضا إذا لم يكن الميت مسجى بثوب يستر جميع بدنه لأنه لو صلى فوق نجاسة على حائل من ثوب أو حصير لا يكره فيما يظهر فكذا إذا قرأ عند نجاسة مستورة وكذا ينبغي تقييد الكراهة بما إذا قرأ جهرا قال في الخانية: وتكره قراءة القرآن في موضع النجاسة كالمغتسل والمخرج والمسلخ وما أشبه ذلك، وأما في الحمام فإن لم يكن فيه أحد مكشوف العورة وكان الحمام طاهرا لا بأس بأن يرفع صوته بالقراءة، وإن لم يكن كذلك فإن قرأ في نفسه ولا يرفع صوته فلا بأس به ولا بأس بالتسبيح والتهليل وإن رفع صوته اهـ"

(‌‌كتاب الصلاة‌‌، باب صلاة الجنازة: 2/ 193، 194، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101683

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں