ایک شخص کاانتقال ہوا،اس کی جائیداد میں ایک مکان اور تین دکانیں ہیں اور وارثوں میں ایک بیٹااور بیٹی ہے،بیٹے نے پورامکان اور دکانوں کی بازاری قیمت لگاکراپنی بہن کا حصہ متعین کرلیااور بہن سے کہا کہ آپ کے حصہ کی رقم جب مجھ سے ہوگی تو میں دے دوں گااوریہ مکان اور دکانیں میں رکھتاہوں ،بہن اس پر راضی ہوگئی ،کچھ سالوں کے بعد ان دکانوں اور مکان کی قیمت بہت بڑھ گئی ،اب بھائی نے ایک دکان کوفروخت کیا،جس میں سے بہن کا مجموعی حصہ جو اس کے ذمہ بنتاتھااداکیا، بہن کے حصہ سے کئی گنازیادہ رقم اس کو فقط اس دکان سے بچ گئی اور بقایا دودکانیں اور مکان اس کے علاوہ بچ گئیں۔
پوچھنا یہ ہےکہ کیا شرعا ًیہ معاملہ درست تھا؟اور اس شخص کےلیےیہ منافع رکھنا کیسا ہے؟
صورت مسئولہ میں اگرواقعۃ ًبیٹے نے اپنے والدصاحب کے انتقال کے بعدان کا ترکہ یعنی مکان اور دکانوں کی قیمت لگاکراپنی بہن کا شرعی حصہ متعین کرلیا تھااور اس وقت بہن سے کہاکہ مذکورہ مکان اور دکانیں میں رکھتاہوں اور آپ کے شرعی حصہ کے بقدر رقم میں دے دوں گا اور بہن اس پر راضی ہوگئی توگویا بہن نے اپنا حصہ بطور قرض کے دے دیاتھا، اب جب مکان اور دکانوں کی قیمت زیادہ ہوگئی تو ایسی صورت میں بھی بہن اتنی ہی رقم کی حقدار ہوگی ،جتنی اس وقت متعین کی گئی تھی،لہذا جب مرحوم کے بیٹے نے اپنی بہن کا شرعی حصہ اداکردیاہےتو یہ معاملہ شرعا ًدرست تھااورباقی دودکانیں ، مکان اور جورقم مرحوم کے بیٹے کےپاس بچ گئی ہے وہ اس کے لیے رکھنااوراستعمال کرناجائزہے۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"(وأما) الذي يرجع إلى نفس القرض: فهو أن لا يكون فيه جر منفعة، فإن كان لم يجز، نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة، على أن يرد عليه صحاحا، أو أقرضه وشرط شرطا له فيه منفعة؛ لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه «نهى عن قرض جر نفعا» ؛ ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا؛ لأنها فضل لا يقابله عوض، والتحرز عن حقيقة الربا، وعن شبهة الربا واجب."
(کتاب القرض، رکن القرض، ج: 7، ص: 795، ط: دار الکتب العلمیة)
درر الحکاممیں ہے:
"لأحد الشريكين إن شاء بيع حصته إلى شريكه في جميع صور الاشتراك إذا لم يكن ذلك مضرا بأي شخص كان وإن شاء باعها لآخر بدون إذن شريكه فيما عدا خلط واختلاط الأموال. كذلك لو كان اثنان متصرفين بعقار وقف بطريق الإجارتين فلأحدهما إن شاء إفراغ حصته لشريكه وإن شاء أفرغها لآخر بدون إذن شريكه لأن لكل إنسان ولاية على مال ولكل أن يتصرف في ماله كيفما شاء. انظر المادة (2 19 1) . (الزيلعي) فلذلك ليس لأحد الشريكين أن يجبر شريكه على شراء حصته أو على بيعها له انظر المادة (72 1) سواء كان المال المشترك عقارا أو كان مملوكا. مثلا لو كان ملك عقار مشتركا بين اثنين فلأحدهما بيع حصته في ذلك العقار إن شاء لشريكه وإن شاء لأجنبي. كذلك لو كانت شاة أو فرس أو أموال أخرى مشتركة بين اثنين وباع أحدهما حصته لأجنبي فالبيع صحيح وليس للشريك إبطال هذا البيع."
(المقدمة في بيان بعض الاصطلاحات الفقهية المتعلقة بالشركة، الباب الأول في بيان شركة الملك، الفصل الأول في بيان تعريف وتقسيم شركة الملك، ج: 3، ص: 49، ط: دار الجیل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606102683
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن