والد کی وفات کے بعد ان کے کپڑے کن کو دئیے جائیں؟
واضح رهے کہ انتقال کے وقت میت کی ملکیت میں جو کچھ موجود ہوتاہے وہ سب اس کےترکہ میں شمار ہوتا ہے،جسے ورثاء کےدرمیان ان کے شرعی حصص کے بقدر تقسیم کیا جائے گا ،تقسیم سے پہلےکسی وارث کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ مشترکہ ترکہ میں دیگر ورثاء کی رضامندی کے بغیر کوئی تصرف کرے۔
لہذا صورت مسئولہ میں اگر تمام ورثاء عاقل بالغ ہوں کوئی ایک بھی نابالغ نہ ہواور باہمی رضامندی سے والد کے استعمال شدہ کپڑے وغیرہ مستحقین میں صدقہ کرنا چاہیں توشرعاصدقہ کرناجائز ہے۔
احکام میت "میں ہے:
"میت کے کپڑے ،جوڑے خیرات کرنا
ایک رسم یہ بھی ہے کہ میت کے انتقال کے بعد اس کے کپڑے اور جوڑے خاص کر استعمالی کپڑے خیرات کردیتے ہیں،حالانکہ ورثاءمیں اکثر نابالغ ورثاء بھی ہوتے ہیں،یاد رکھئےمیت کے تمام کپڑے اور ہر چھوٹی بڑی چیزاس کا ترکہ ہےجس کو شرع کے مطابق تقسیم کرنا واجب ہےاس سے پہلے کوئی چیز خیرات نہ کی جائے ،البتہ اگر وارث بالغ ہو ں اور وہا ں موجودہوں اور خوش دلی سے سب متفق ہو کردے دیں تویہ خیرات کرنا جائز ہے لیکن اسے واجب یا ضروری سمجھنا پھربھی بدعت ہے۔"
(باب ہشتم بدعات اور غلط رسمیں(ص:217)ط: ادارۃ المعارف کرچی)
شرح المجلۃ لسلیم رستم باز میں ہے:
"كما ان اعيان المتوفي المتروكة عنه مشتركة بين الورثة علي حسب حصصهم."
(كتاب الشركة ،الفصل الثالث(1 /610)ط:دارالاشاعة العربية
شامی میں ہے:
"يبدأ من تركة الميت الخاليةعن تعلق حق الغيربعينها
(قوله الخالية)لأن تركه الميت ماتركه الميت من الأموال صافيا عن تعلق حق الغير بعين من الأموال."
(الدرالمختارمع ردالمحتار،كتاب الفرائض(6/ 759 )ط:دارالفكر بيروت)
شرح المجلة لسليم رستم باز ميں هے:
"يجوز لأحد أصحاب الحصص التصرف مستقلا في الملك المشترك بإذن الآخر،لكن لايجوز له أن يتصرف تصرفا مضرا بالشريك ، والإذن نوعان: صريح و دلالة ، ففي الأول يتصرف الشريك بحصة شريكه كما أذنه سواء أضر أو لم يضر فله أن يرهن و يبيع أو يهب."
(الكتاب العاشر في أنواع الشركات ، الفصل الثاني( الماده: 1071 ص:600)ط:دارالاشاعت العربية)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144408100753
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن