ہمارے ہاں ایک رواج ہے اور وہ یہ ہے کہ جب کسی گھر میں فوتگی ہوجائے تو اس میت کےقبیلے کے لوگوں پر لازم ہے کہ وہ میت کے اہل خان کو پانچ سو روپے دیں گے اور یہ پیسے دینا ہر ایک گھر پر لازم ہے، اور وہ اس کو خاندانی تعاون کا نام دے کر جائز سمجھتے ہیں اور ہمارے علاقے کے کچھ مفتیان صاحبان اس کو خاندانی تعاون کا نام دے کر جائز سمجھتے ہیں۔ اور یہ پیسے صرف ایک قوم یعنی قبیلے کے لوگوں کے ساتھ خاص ہیں کہ ہر گھر والے پانچ سو روپے میت کے اہلِ خانہ کو دیں گے تو کیا یہ جائز ہے ؟
تعاون میں تو رضامندی ہوتی ہے،جبر نہیں ہوتا،لہذاسائل کے بیان کے مطابق جبری طور پریا خاندانی دباؤ وغیرہ میں میت کے اہل خانہ کو رقم دینے کو جائز تعاون نہیں کہا جاسکتا، اس طرح کا معاملہ شرعًا جائز نہیں ہے۔اس طرح کے غیر شرعی خاندانی رواج کو ترک کردینا چاہیے۔
مسنداحمد میں ہے:
"عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: کنت آخذاً بزمام ناقة رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه و سلم في أوسط أیام التشریق أذود عنه الناس، فقال: یا أیها الناس! ألا لاتظلموا ، ألا لاتظلموا، ألا لاتظلموا، إنه لایحل مال امرء إلا بطیب نفس منه".
( رقم الحدیث:20714،ج:5،ص:72،ط:مؤسس قرطبة القاهرة)
درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
"المادة (1192) - (كل يتصرف في ملكه كيفما شاء..........
كل يتصرف في ملكه المستقل كيفما شاء أي أنه يتصرف كما يريد باختياره أي لا يجوز منعه من التصرف من قبل أي أحد هذا إذا لم يكن في ذلك ضرر فاحش للغير. انظر المادة (1197) .
كما أنه لا يجبر من أحد على التصرف أي لا يؤمر أحد من آخر...."
(الکتاب العاشر الشرکات،ج3،ص201،ط؛دار الجیل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144509100660
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن