بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کے گھر والوں کا سوگ منانا


سوال

 میت کے گھر والوں کو سوگ اور لوگوں کی طرف سے تعزیت وصول کرنے کی نیت سے تین دن کام کاج چھوڑ کر گھر بیٹھے رہنے کی کیا حیثیت ہے ؟ کیا یہ عمل افضل ہے یا تجہیز و تکفین کے فورا بعد اپنے معمولات زندگی کی طرف لوٹنا افضل ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کوئی شخص فوت ہوجائے ان کے گھر والوں سے تین دن تک   تعزیت  کرناسنت ہے، اس لیے اگر کسی کے انتقال کے بعد اس کے گھر والے تین دن تک تعزیت وصول کرنے کے لیے کسی مقررہ جگہ بیٹھ جائیں، تو  یہ بھی جائز ہے اور اگر لوگ تعزیت کے لیے نہ آتے ہوں، تو اپنے معمولات کی طرف بھی لوٹ سکتے ہیں۔

ام عطیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:

"كنا ننهى ان نحد علي ميت فوق ثلاث الاعلي زوج اربعة اشهر و عشرا ولا نكتحل ولا نطيب ولا نلبس مصبوغا الا ثوب عصب وقد رخص لنا عند الطهر اذا اغتسلت احدانا من محيضها في نبذة من كست اظفار وكنا ننهى عن اتباع الجنائز."

(بخاري،کتاب الحیض،‌‌باب الطيب للمرأة عند غسلها من المحيض، ح: 5341ج،1،ص:69،الرقم:313،ط:السلطانیة مصر)

ترجمہ:’’ہمیں اس سے منع کیا گیا ہے کہ کسی میت کا تین دن سے زیادہ سوگ منائیں سوائے شوہر کے کہ اس کی وفات پر چار مہینے دس دن کی عدت تھی۔ اس عرصہ میں ہم نہ سرمہ لگاتیں، نہ خوشبو استعمال کرتیں اور نہ رنگا کپڑا پہنتی تھیں۔ البتہ وہ کپڑا اس سے الگ تھا جس کا (دھاگہ) بُننے سے پہلے ہی رنگ دیا گیا ہو۔ ہمیں اس کی اجازت تھی کہ اگر کوئی حیض کے بعد غسل کرے تو اس وقت اظفار کا تھوڑا سا عُود استعمال کر لے اور ہمیں جنازہ کے پیچھے چلنے کی بھی ممانعت تھی۔‘‘

ردالمحتار میں ہے:

"ویباح الحداد علی قرابة ثلاثة ایام فقط، وللزوج منعها لان الزینة حقه فتح، وینبغي حل الزیادۃ علي الثلاثة اذا رضي الزوج اولم تکن مزوجة نھر الخ."

(کتاب العدۃ،ج:3،ص:533،ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101897

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں