ہمارے ایک بزرگ کا انتقال ہوا ،طارق روڈ کے قبرستان میں دفن ہوئے، ان کی اپنی والدہ کی قبر کے اوپر چاروں طرف بلاک لگا کر قبر بنادی، اس میں دفن ہوئے ،اس کے متعلق کیا حکم ہے؟
واضح رہے کہ قرآنی تعلیمات کی رو سے یہ بات انسان کو سکھلائی گئی ہے کہ وہ انتقال کے بعد میت کو جلانے تابوت میں بند کرنے کے بجائے ،باعزت طریقے سے مٹی کے حوالے کردے ،یہی بات قرآن کریم کی آیت "فَبَعَثَ اللّٰهُ غُرَابًا یَّبْحَثُ فِی الْاَرْضِ لِیُرِیَهٗ كَیْفَ یُوَارِي سَوْءَةَ اَخِیْه"سےمعلوم ہوتی ہے کہ جب قابیل نے ہابیل کو قتل کردیا تو اس کے بعد زمین کھود کر اس میں ہابیل کو دفنایا ،اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ زمین کھود کر اس میں دفن کرنا ضروری ہے ، اسی طرح علامہ نوویؒ نے اپنی کتاب روضۃ الطالبین میں لکھا ہے کہ :"تدفین کیلئے کم از کم یہ ہے کہ میت کو ایسے گڑھے میں دفن کیا جائے جہاں سے میت کی بو نہ آئے، اور درندوں سے محفوظ رہے"،اور پھر فرمایا کہ "قبر کم از کم ایک درمیانے آدمی کے قد کے برابر گہری ہو"تو گہری تب ہی ہوسکتی ہے جب کہ زمین کھود کر بنائی جائے ،نہ کہ زمین کے اوپر بلاک رکھ کر کیوں کہ یہ قبر میں رکھنا نہیں ،بلکہ دیوار کے اندر رکھنا کہا جائے گا ۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں جس بزرگ کی قبر کو ان کی والدہ کی قبر کے اوپر بلاک لگا کر بنایا گیا ہے تو یہ طریقہ شرعا درست نہیں ،اس طریقہ کو دفن کرنا نہیں کہا جائے گا۔
روضۃ الطالبین میں ہے:
"فصل:أقل ما يجزئ في الدفن حفرة تكتم رائحة الميت، وتحرسه عن السباع لعسر نبش مثلها غالبا. أما الأكمل، فيستحب توسيع القبر، وتعميقه قدر قامة وبسطة، والمراد قامة رجل معتدل يقوم ويبسط يده مرفوعة."
(كتاب الجنائز، ج:2، ص:132، ط:المكتب الإسلامي)
فتاوی شامی میں ہے:
"مطلب في دفن الميت:(قوله وحفر قبره إلخ) شروع في مسائل الدفن. وهو فرض كفاية إن أمكن إجماعا حلية. واحترز بالإمكان عما إذا لم يمكن كما لو مات في سفينة كما يأتي. ومفاده أنه لا يجزئ دفنه على وجه الأرض ببناء عليه."
(كتاب الجنائز، ج:2، ص:233، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144502101385
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن