بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کو آبائی گاؤں میں تدفین کیلئے منتقل کرنا/ تعدد نماز جنازہ


سوال

 ہمیں اس مسئلے میں رہنمائی چاہیئے کہ ہمارے گاؤں ایوبیہ کے اکثر لوگ روزگار کی وجہ سے راوپنڈی یا دیگر شہروں میں آباد ہیں، عام طور پہ ایسا ہوتا ہے کہ اگر کوئی شہر میں فوت ہو جائے تو میت کو تدفین کیلئے گاؤں لایا جاتا ہے، اب یہاں ہمیں دو مسئلوں میں رہنمائی چاہئے۔ ایک یہ میت کو جہاں فوت ہوا وہاں سے دوسری جگہ منتقل کرنا شرعاً کیسا ہے؟

دوسری بات یہ کہ میت کےبہت سے متعلقہ لوگ شہر میں ہوتے ہیں اور بہت سارے گاؤں میں ہوتے ہیں،  تو کیا ہم میت کا جنازہ شہر میں پڑھ کر دوبارہ گاؤں میں جا کر پڑھ سکتے ہیں یا نہیں ؟اس میں کیا تفصیل ہے؟  شرعا رہنمائی فرمائیں۔  

جواب

واضح رہے کہ بہتر اور مستحب یہ ہے کہ میت جس شہر میں فوت ہو جائے اسی میں دفن کیا جائے ، بغیر ضرورت اور عذر کے دوسرے شہر منتقل کرنا مکروہ ہے،نیز میت کی تدفین میں بلا عذر شرعی تاخیر کرن بھی درست طریقہ نہیں، میت کے ساتھ خیر خواہی اسی میں ہے کہ میت کو جلد از جلد اپنی امانت گاہ (قبر) میں رکھا جائے ۔*

فتاویٰ رحیمیہ میں ہے:

مستحب اور افضل طریقہ یہی ہے کہ انسان کا جہاں انتقال ہوا وہیں اس کو دفن کیا جائے چاہے اس کا انتقال وطن میں ہوا ہو یا وطن سے باہر کسی اور جگہ ،دفن کرنے سے قبل منتقل کرنے میں فقہاء کا اختلاف ہے میل دو میل منتقل کرنا تو بالا تفاق جائز ہے ، دو میل سے زیادہ منتقل کرنے کو اکثر فقہاء نے مکروہ لکھا ہے ، اور صاحب نہر نے اسے بحوالہ عقد الفرائد الظاہر (ظاہری روایت) کہا ہے (شامی نے اسے نقل کیا ہے ج۱ صل ۸۴۰)بعض فقہاء مادون السفراور بعض مطلقاً جواز کے قائل ہیں مگر افضل منتقل نہ کرنا ہے بچند وجوہ۔

(۱)منتقل کرنے سے تجہیز و تکفین میں تاخیر ہوتی ہے ، حالانکہ تجہیز و تکفین میں عجلت مطلوب ہے۔

(۲)گاہے میت کے بدن میں تغیر پیدا ہوجاتا ہے ،کبھی تو لاش پھول پھوٹ جاتی ہے، بدبو پیدا ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے لوگ بھی دور دور رہتے ہیں اور میت کا جو احترام ہونا چاہئے وہ فوت ہوجاتا ہے ،اور اگر غسل دیئے بغیر منتقل کیا ہوتو پہنچنے تک کبھی میت نہ غسل کے قابل رہتی ہے نہ نماز جنازہ کے قابل، منتقل کرنا اپنے اختیار میں نہیں ہوتا، قانونی رکاوٹیں سامنے آتی ہیں اور تاخیر ہوجاتی ہے ۔

(۳)منتقل کرنے میں میت کی بے حرمتی کا بھی زیادہ امکان ہے ، ضرورت سے زیادہ میت کو حرکت ہوتی ہے اور بسا اوقات لاش کو برف پر رکھا جاتا ہے جو بجائے خود میت کے لئے تکلیف کا سبب ہے اور میت کو تکلیف پہنچانا ممنوع ہے ۔۔۔۔الخ

(فتاویٰ رحیمیہ، ج7، ص 130، کتاب الجنائز ، ط: دار الاشاعت)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ويستحب في القتيل والميت دفنه في المكان الذي مات في مقابر أولئك القوم، وإن نقل قبل الدفن إلى قدر ميل أو ميلين فلا بأس به، كذا في الخلاصة. وكذا لو مات في غير بلده يستحب تركه فإن نقل إلى مصر آخر لا بأس به"

(الفتاوى الهندية (4 / 485)٫كتاب الإجارة -الفصل الثاني اختلاف الآجر والمستأجر في وجود العيب بالأجرة، ط: دار الفکر)

2) اگر میت کے اولیاء نے نماز جنازہ پڑھ لی یا ان کی اجازت سے پڑھائی گئی تو نمازِ جنازہ ادا ہو گئی اور فر ضِ کفایہ ادا ہوگیا۔دوبارہ جنازہ ادا کرنا درست نہیں۔اس لیے کہ دوسری بار جنازہ مشروع نہیں۔ 

البتہ اگر میت کے ولی نے نمازِ جنازہ نہیں پڑھی اور نہ ہی اس کی اجازت سے پڑھی گئی ، بلکہ ایسے لوگوں نے پڑھی جن کو اس میت پر ولایت کا حق نہیں تو ولی اس کی نمازِجنازہ پڑھ سکتا ہے، لیکن اس دوسری جماعت میں صرف وہ لوگ شریک ہوں گے جو پہلی میں شریک نہیں تھے۔

شامی میں ہے:

"فإن صلی غیره أي غیر الولي ممن لیس له حق التقدم علی الولي و لم یتابعه الولي أعاد الولي ولو علی قبره". (الدرالمختار ، باب صلاة الجنائز، ۲/۲۲۲ ط سعید) 

"(ثم الولي) بترتیب عصوبة الإنکاح ، فلا ولایة للنساء ولا للزوج". (رد المحتار ص ۶۱۶)

 فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200678

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں