بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کو غسل دینے کے بعد اس کے چہرے کی مسکراہٹ وغیرہ کیا جنتی ہونے کی دلیل ہے؟


سوال

کسی عورت کا انتقال ہونے کے بعد اسے غسل دینے اور سنوار نے کے بعد ، اس کے چہرے پر جو نور آتا ہے، اور چہرہ مسکراتا ہوا ہنستا ہوا نظر آنے لگتا ہے، اس کی کیا حیثیت ہے ؟ لوگ کہتے ہیں کہ وہ عورت جنتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ موت  کے بعد  ایسی کوئی یقینی  علامت موجود نہیں ہے جس سے بندے کے جنتی ہونے کی دلیل لی جائے ،ہاں البتہ کبھی میت کے چہرے کی خوبصورتی یا مسکراہٹ کی وجہ سے اس کی چمک ،یا اسی جیسی کسی اور نشانی سے کچھ اشارے مل سکتے ہیں ، لیکن یہ بھی  اس وقت ہے جب اس شخص کی زندگی تقویٰ ،اللہ رب العزت کے احکامات ،اور نبی علیہ الصلاۃ والسلام کے طریقوں کے مطابق گزری ہو،تاہم اس بارے میں کو ئی یقینی بات یا فیصلہ کرنا درست نہیں۔

چنانچہ اگر مرنے والا  بندہ اپنی زندگی میں نیکی و تقوی میں مشہور تھا، پھر اس کی موت کے بعد اس کا چہرہ خوبصورتی سے چمک اٹھا ،تو یہ ایسی علامت ہے جس سے نیک شگونی لی جاسکتی ہے، اور اس پر خیر کی امید کی جا سکتی ہے،لیکن یقینی طور پر اس شخص پر جنتی ہونے کا حکم نہیں لگایا جاسکتا؛ کیونکہ یہ صرف اللہ رب العزت کے علم میں ہے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"حدثنا يحيى بن بكير: حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب قال: أخبرني خارجة بن زيد بن ثابتأن أم العلاء، امرأة من الأنصار بايعت النبي صلى الله عليه وسلم، أخبرته: أنه أقسم المهاجرون قرعة، فطار لنا عثمان بن مظعون، فأنزلناه في أبياتنا، فوجع وجعه الذي توفي فيه، فلما توفي وغسل وكفن في أثوابه، دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: رحمة الله عليك يا أبا السائب، فشهادتي عليك: لقد أكرمك الله. فقال النبي صلى الله عليه وسلم: (وما يدريك أن الله أكرمه). فقلت: بأبي أنت يا رسول الله، فمن يكرمه الله؟ فقال: (أما هو فقد جاءه اليقين، والله إني لأرجو له الخير، والله ما أدري، وأنا رسول الله، ما يفعل بي). قالت: فوالله لا أزكي أحدا بعد أبدا ."

(كتاب الجنائز، باب: الدخول على الميت بعد الموت اذا ادرج فى كفنه، ج:1، ص:419، رقم:1186، ط:دار ابن كثير، دار اليمامة - دمشق)

ترجمہ:"  ام العلاء رضی اللہ عنہا انصار کی ایک عورت نے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی، نے انہیں خبر دی کہ مہاجرین قرعہ ڈال کر انصار میں بانٹ دیئے گئے تو عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ ہمارے حصہ میں آئے۔ چنانچہ ہم نے انہیں اپنے گھر میں رکھا۔ آخر وہ بیمار ہوئے اور اسی میں وفات پا گئے۔ وفات کے بعد غسل دیا گیا اور کفن میں لپیٹ دیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ میں نے کہا ابوسائب آپ پر اللہ کی رحمتیں ہوں میری آپ کے متعلق شہادت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی عزت فرمائی ہے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی عزت فرمائی ہے؟ میں نے کہا یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں پھر کس کی اللہ تعالیٰ عزت افزائی کرے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس میں شبہ نہیں کہ ان کی موت آ چکی، قسم اللہ کی کہ میں بھی ان کے لیے خیر ہی کی امید رکھتا ہوں لیکن واللہ! مجھے خود اپنے متعلق بھی معلوم نہیں کہ میرے ساتھ کیا معاملہ ہو گا۔ حالانکہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ ام العلاء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اللہ کی قسم! اب میں کبھی کسی کے متعلق (اس طرح کی) گواہی نہیں دوں گی۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101407

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں