میت کو دفنانے کے بعد مروجہ تین مرتبہ دعاؤں کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟
صورتِ مسئولہ میں میت کو دفنانے کے بعد قبر پر دعا کرناثابت ہے، ہاتھ اٹھا کر بھی کر سکتے ہیں؛ حضورﷺ سے قبر پرقبلہ رو ہوکر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا ثابت ہے، ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہوئے قبلہ رو ہونا چاہیے کہ اس میں میت سے مانگنے کا شائبہ نہیں ہوتا ہے، البتہ اس میں تعداد(تین بار دعا) کی تعیین ثا بت نہیں ،اس کو لازم سمجھنا بدعت ہے، لہذا ایک مرتبہ میں ہی خوب دعا کرنی چاہیے۔
مرقاة المفاتيح میں ہے:
"عن ابن مسعود قال: والله فكأني أرى رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة تبوك وهو في قبر عبد الله ذي البجادين، وأبو بكر وعمر، يقول: أدنيا مني أخاكما، وأخذه من قبل القبلة، حتى أسنده في لحده، ثم خرج رسول صلى الله عليه وسلم وولاهما العمل، فلما فرغ من دفنه استقبل القبلة رافعا يديه يقول: «اللهم إني أمسيت عنه راضيا فارض عنه» ، وكان ذلك ليلا، فوالله، لقد رأيتني ولو وددت أني مكانه."
( مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، باب دفن المیت، ج: 3، 1222، ط: دار الفكر، بيروت - لبنان)
فتاوى هنديہ میں ہے:
"وإذا أراد الدعاء يقوم مستقبل القبلة، كذا في خزانة الفتاوى."
(كتاب الكراهية ، الباب السادس عشر في زيارة القبور و قراءة القرآن في المقابر، ج: 5، صفحه: 350، ط: دار الفکر)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144505101824
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن