بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1445ھ 16 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کی تصویر موبائل میں رکھنا /عورت کا قبر پر جانا / میت کو قبر پر آنے والے کو پہچاننا / میت پر رونا


سوال

میرے بچے کا کچھ دن پہلے انتقال ہوگیا ،جس کی عمر سات سال تھی ،میرا سوال یہ ہے کہ کیا اس کی تصویر موبائل میں رکھ سکتے ہیں گناہ تو نہیں  ہوتا اس کو اس کی وجہ سے؟ اور کیا اس کی قبر پر والدہ جاسکتی ہے اور کیا اس کو ہمارے قبر پر جانے کا پتہ چلتا ہوگا اور اس سے بچے کو تکلیف نہیں ہوتی یا والدین کا رونا اس کے لیے تکلیف کا سبب تو نہیں بنتا؟

جواب

 واضح رہے کہ جان دار  کی تصویر کھینچنا، بنانا، اور محفوظ رکھنا ناجائز اور حرام ہے،  اس پر حدیثِ مبارک میں بہت وعیدیں وارد ہوئیں ہیں؛ لہذا زندہ یا کسی مرحوم  کی تصویر رکھنا ناجائز ہے، اس کو ڈیلیٹ کردینا ضروری ہے،باقی اگر کسی نے از خود مرحوم کی تصویر کھینچ کر اپنے پاس رکھ لی تھی تو اب اس کا گناہ مرحوم کو نہیں ہوگا، بلکہ خود اس تصویر رکھنے والے کو ہوگا۔

جوان  عورت کے لیے  قبرستان  جانا مکروہ ہے،البتہ بوڑھی عورت اگر قبرستان جاکر رونا دھونا نہیں کرے گی تو قبرستان جانے کی اجازت ہے ؛لہذا اگر بچہ کی والدہ جوان ہے تو نہ  جائے اور اگر بوڑھی ہے اور وہاں جا کر جزع فزع نہیں کرے گی تو جاسکتی ہے   البتہ اگر والدین  یا کوئی بھی   قبر کے پاس جاتا ہے تو ان كو  میت پہچانتا ہے ۔

اگر میت سے تعلق کی بناء پر رونا آجائے تو یہ ایک طبعی چیز ہے اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں ، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں حضرت ابراہیم کی وفات پر نم تھیں ،البتہ واویلا کر کے رونا یا نوحہ کرکے رونا شرعاً جائز نہیں ؛لیکن اس رونے کی وجہ سے میت (بچے)کو عذاب نہیں ہوگا ۔

البحر الرائق میں ہے :

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصويره صورة الحيوان وأنه قال: قال أصحابنا وغيرهم من العلماء: ‌تصوير ‌صور ‌الحيوان حرام شديد التحريم وهو من الكبائر لأنه متوعد عليه بهذا الوعيد الشديد المذكور في الأحاديث يعني مثل ما في الصحيحين عنه - صلى الله عليه وسلم - «أشد الناس عذابا يوم القيامة المصورون يقال لهم أحيوا ما خلقتم» ثم قال وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره فصنعته حرام على كل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم ودينار وفلس وإناء وحائط وغيرها اهـ.فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل لتواتره."

(باب مایفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا ،ج:2،ص:29،دارالکتاب الاسلامی)

منحۃ الخالق حاشیۃ البحر الرائق میں ہے :

"(قوله وقيل ‌تحرم ‌على ‌النساء إلخ) قال الرملي أما النساء إذا أردن زيارة القبور إن كان ذلك لتجديد الحزن والبكاء والندب على ما جرت به عادتهن فلا تجوز لهن الزيارة، وعليه حمل الحديث «لعن الله زائرات القبور» ، وإن كان للاعتبار والترحم والتبرك بزيارة قبور الصالحين فلا بأس إذا كن عجائز ويكره إذا كن شواب كحضور الجماعة في المساجد."

(البحر الرائق ،ج:2،ص:211،دارالکتاب الاسلامی)

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے :

"وقال ابن القيم: الأحاديث والآثار تدل على ‌أن ‌الزائر متى جاء علم به المزور وسمع سلامه وأنس به، ورد عليه وهذ عام في حق الشهداء وغيرهم."

(ص:620،فصل فی زیارۃ القبور،دارالکتب العلمیہ)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے :

"واختلف العلماء فيه: فذهب الجمهور إلى أن الوعيد في حق من أوصى بأن يبكى عليه، ويناح بعد موته، فنفذت وصيته، فهذا يعذب ببكاء أهله عليه ونوحهم ; لأنه تسببه، وأما من بكوا عليه وناحوا من غير وصية فلا ; لقوله تعالى: {ولا تزر وازرة وزر أخرى} قال الخطابي: يشبه أن يكون هذا إذا أوصى بالبكاء عليه، وقيل: أراد بالميت المشرف على الموت، فإنه يشتد عليه الحال ببكائهم وصراخهم وجزعهم عنده، وقيل: هذا في بعض الأموات: كأن يعذب في زمان بكائهم عليه، وهذا الوجه ضعيف لما في رواية: «يعذب في قبره بما نيح عليه» ، وفي أخرى: الميت يعذب ببكاء الحي إذا قالت النائحة: واعضداه، وا ناصراه، واكاسياه، جبذا الميت، وقيل: له أنت عضداها؟  أنت ناصرها؟  أنت كاسيها؟  اهـ. وهذا صريح أنه إنما يعذب إذا كان أوصى أو كان بفعلهم يرضى ; ولهذا أوجب داود ومن تبعه الوصية بترك البكاء، والنوح عليه، وبهذا الذي ذكرنا يظهر وجه قوة قول الجمهور."

(کتاب الجنائز ،باب البکاء علی المیت ،ج:3۔ص:1233،دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101955

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں