بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کے لیے دعا کر کے کھانا کھانے کا حکم


سوال

میت  کے لیے دعا کرکے کھانا کھانا کیا جائز ہے؟ مسجد میں میت  کے لیے اجتماعی دعا کرکے مصلی کو تبرک کھلانا کیا جائز ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ میت کے لیے ایصالِ ثواب کرنا جائز اور مستحسن ہے،   لیکن ایصالِ ثواب  کے لیے  اجتماع منعقد  کرکے ایک مخصوص عبادت کرنااور اس کے بعد کھانے کا انتظام کرنا سنت سے ثابت نہیں؛  لہذا اس رواج کو ترک کرنا چاہیے اور اہلِ  میت کو چاہیے کہ وہ انفرادی طور پر میت کو  ایصالِ ثواب کردیں، اور اگر یہ کھانا قرآن خوانی کے عوض کے طور پر ہو، یعنی کھانے کی کوئی چیز نہ ہو تو لوگ قرآن خوانی میں شریک نہ ہوں، اور کھانا وغیرہ ہو تو شریک ہوں  تو  یہ ثواب کے لیے پڑھے گئے قرآنِ کریم پر اجرت لینا ہے، جو شرعًا ناجائز ہے۔ اور عمومًا اس طرح کے مواقع پر قرآنِ پاک کی درست خوانی کا لحاظ بھی نہیں رکھا جاتا، اس لیے بھی اس رسم سے اجتناب کرنا چاہیے۔باقی اگر کسی نماز کے بعد امام صاحب میت کی مغفرت کی دعا کرادیں تو شرعًا اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اس کے بعد نمازیوں کو تبرک کھلانے کی رسم واجب الترک ہے ،یعنی اس کا چھوڑنا لازم ہے۔

فتاوی شامی میں ہے: 

"«مطلب في كراهة الضيافة من أهل الميت

وقال أيضا: ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة: وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال " كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة ". اهـ. وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص. والحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره. وفيها من كتاب الاستحسان: وإن اتخذ طعاما للفقراء كان حسنا اهـ وأطال في ذلك في المعراج."

(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ ج نمبر ۲ ص نمبر ۲۴۰،ایچ ایم سعید)

کفایت المفتی میں ہے:

"اہلِ  میت کے گھر ضیافت کھانے کی جو رسم پڑ گئی ہے، یہ یقینا واجب الترک ہے،  صرف  اہلِ میت کے وہ عزیز و اقارب جو دور سے آئے ہوں اور ان کی امروز واپسی نہ ہوسکے یا اہلِ میت کی تسلی کے لیے ان کا قیام ضروری ہو،  وہ میت کے گھر کھانا کھا لیں تو  خیر، باقی تمام تعزیت کرنے والوں کو اپنے اپنے گھروں کو واپس جانا چاہیے، نہ میت کے گھر قیام کریں، نہ ضیافت کھائیں۔"

(کتاب الجنائز ج نمبر ۴ ص نمبر ۱۲۳،دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212202097

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں