میرے ابو سال 11 فروری 2021 کو اس دار فانی سے رخصت ہوئے، اب ہر سال 11 فروری کو میرے گھر والے کہتے ہیں کہ مدرسے سے بچے لا کر ختم قرآن کراؤ یہ کرنا کیسا ہے؟
واضح رہے کہ کسی میّت کے ایصالِ ثواب کے لیے سوئم، چالیسواں ، سالانہ یا کوئی بھی وقت، دن یا کیفیت کا مخصوص کرناشریعت میں ثابت نہیں؛لہٰذا یہ بدعت ہے؛ کیوں کہ ثواب سمجھ کر اس کا اہتمام کیا جاتاہے۔
مسلمان کا فرض ہے کہ غمی ہو یا خوشی کسی حال میں بھی دین کے احکامات سے رو گردانی نہ کرے، بلکہ ہر خوشی و غم کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے حکم کو سامنے رکھ کر اس پر چلنے کی پوری کوشش کرے۔
غم کے موقع پر غیر شرعی رسومات و بدعات (مثلاً: تیجہ، چالیسواں، اجرت کے عوض تلاوتِ قرآن پاک ، نوحہ وغیرہ) ناجائز ہیں،میت کے لیے ایصالِ ثواب تو ہر وقت ، ہر موقعہ پر کرنا جائز ہے، اور میت کو اس کا فائدہ پہنچتا ہے، اس لیے گھر میں ہی جو افراد اتفاقًا جمع ہوں اور اعلان و دعوت کے بغیر اپنی خوشی سے کچھ پڑھ لیں، دن وغیرہ کی کوئی تخصیص نہ ہو، اور قرآن پڑھنے کے عوض اجرت کا لین دین نہ ہو تو اس کی اجازت ہے، لیکن اس کے لیے تیسرے دن، اور چالیسویں دن ،اور سال کی تخصیص کرنا شرعاً ثابت نہیں ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"یکره اتخاذ الضیافة من الطعام من أهل المیت؛ لأنه شرع في السرور لا في الشرور وهي بدعة مستقبحة، وقوله: ویکره اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع، ونقل الطعام إلی القبرفي المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقرّآء للختم أو لقراء ة سورة الإنعام أوالإخلاص".
( کتاب الصلاة ، باب صلاة الجنازة، مطلب في كراهة الضیافة من أهل المیت، ج:2، ص:240، ط:سعيد)
وفیہ ایضا:
ومنها: الوصیة من المیت باتخاذ الطعام والضیافة یوم موته أو بعده و بإعطاء دراهم من یتلو القرآن لروحه أو یسبح و یهلل له، وکلها بدع منکرات باطلة، والماخوذ منها حرام للاٰخذ، وهو عاص بالتلاوة والذکر".
(كتاب الاجارة، باب الإجارة الفاسدة، ج:6، ص:57، ط:سعيد)
الاعتصام للشاطبي میں ہے:
"وعن أبي قلابة: " لاتجالسوا أهل الأهواء، ولاتجادلوهم; فإني لاآمن أن يغمسوكم في ضلالتهم، ويلبسوا عليكم ما كنتم تعرفون". قال أيوب: "وكان والله من الفقهاء ذوي الألباب". وعنه أيضاً: أنه كان يقول: "إن أهل الأهواء أهل ضلالة، ولاأرى مصيرهم إلا إلى النار". وعن الحسن: " لاتجالس صاحب بدعة فإنه يمرض قلبك".
(الباب الثاني في ذم البدع وسوء منقلب أصحابها، فصل ما جاء عن السلف الصالح في ذم البدع وأهلها، ج:1، ص:112، ط:دار ابن عفان)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144507102088
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن